ہمارے ملک کا ہر شخص اس بات کو تو جانتا تھا کہ مرکزی شہروں کے علاوہ افغانستان کے بیشتر علاقوں میں شاگرد (طالبان) قابض ہیں، لیکن کسی کے وہم و گمان میں یہ ہرگز نا تھا کہ 20 سال امریکہ کے زیر سایہ، زیر تربیت و زیر نگرانی رہنے والی جدید ترین اسلحہ سے لیس افغان فوج ریت کی دیوار ثابت ہو گی اور تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ میری ناقص رائے میں لوگ اسے عسکری انقلاب سے تشبیہ دے رہے ہیں جبکہ یہ سیاسی و عسکری انقلاب ہے۔ جس میں بالآخر شاگرد (طالبان) فتح یاب ہوئے ہیں، تین باتیں اس قضیہ سے واضح ہیں کہ جنگ جدید اسلحہ سے نہیں لڑی جا سکتی، اگر لڑی جا سکتی تو امریکہ و اسکے اتحادی 20 سال بعد یوں پسپائی نہ اختیار کرکے رسوا ہو کر نکلتے، دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ طاقت کے نشے میں چور بدمست ہاتھی کی طرح کسی بھی ملک پر چڑھ دوڑیں گے تو 20 سال بعد بھی شکست آپ کا مقدر ہو گی، اور آخری اہم ترین بات یہ ہے کہ مزاحمت کے ساتھ ہمت و استقامت بھی ضروری ہے۔ نیز جمہوریت ہر ملک کی ضرورت نہیں ہے، ہر قوم کا مزاج جمہوری نہیں ہوتا ہے۔
اب افغان قیادت کی چند غلطیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے، صدر اشرف غنی نے سیاسی بصیرت کا بالکل مظاہرہ نہیں کیا، انھوں نے بات چیت کے تمام مواقع ضائع کئے اور کسی سیاسی حل کو اختیار نہیں کیا۔ زبانی جمع خرچ میں وہ اس آس اور امید پر رہے کہ امریکی بحری بیڑہ انکی مدد کے لئے آئے گا، جبکہ امریکی بحری بیڑہ مدد کے لئے تو آیا لیکن اپنے ہم وطنوں کی۔ افغان افواج نے مزاحمت نہ کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا اور ملک کو خانہ جنگی سے بچا لیا۔ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے، جو انتہائی خوش آئند ہے۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا اس خطے سے جانا سبھی کے لئے فائدہ مند ہے، اس کی چند ایک بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ چائنہ اور روس کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا افغانستان میں انسانی حقوق کتنے پامال ہوتے ہیں اور اسلامی نظام نافذ ہوتا ہے کہ نہیں، ان ممالک کو صرف اس بات کی یقین دہانی چاہیے کہ افغانستان کی سرزمین ان کے ممالک کے خلاف نہیں استعمال ہو گی، یعنی مذہبی انتہاپسندی و شورش کی تحاریک کو سرحد پار برآمد نہیں کیا جائے گا۔ سب سے اہم وجہ تجارتی راستہ اور گرم پانیوں تک رسائی ہے جو افغانستان کے زمینی راستہ اور بذریعہ پاکستان میسر ہے۔
افغان شاگرد (طالبان) اب تک نہایت عمدہ طریقہ سے سیاست و دیگر سفارتی معاملات کو چلا رہے ہیں جس میں وہ عورتوں و دیگر معاملات کے متعلق نہایت محتاط بیانات دے رہے ہیں، نیز تمام ممالک کے ساتھ وہ دوستانہ تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ چین کے حالیہ بیانات اور برطانوی وزیراعظم کے بیانات اس بات کا عندیہ ہیں کہ سیاسی حکومت کے وجود میں آتے ہی کسی نا کسی سطح پر شاگردوں (طالبان) کی حکومت کو تسلیم کرکے قانونی حیثیت دے دی جائے گی۔ جب تک بین الاقوامی سطح پر شاگردوں (طالبان) کو تسلیم نہیں کیا جاتا پاکستان اس حکومت کو تسلیم نا کرے، اسی میں ہمارے لئے عافیت ہے، اس دوران ہمیں ریاستی طور پر اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ تحریک طالبان پاکستان کے وہ دہشت گرد عناصر جنھیں افغانستان میں پناہ دی گئی ہے ان کو کسی لحاظ سے تحلیل کروا لیا جائے یا کم از کم خاموش کروا لیا جائے۔
ان تمام خدشات کی شکل افغان سیاسی حکومت کی تشکیل کے بعد واضح ہو گی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ شاگرد آ نہیں رہے، شاگرد آ چکے ہیں، نیز اس دفعہ انکی عسکری حکمت عملی 1996ء سے بہتر رہی ہے، امید ہے کہ امن کو ایک موقعہ ملنا چاہیے ہو سکتا ہے شاید اس خطہ کی تقدیر بدل جائے اور مزید جنگوں کا سدباب ہو جائے۔