اعدادو شمار کے مطابق پنجاب میں کینسر کے 5 سے 6 ہزار مریض جنہیں حکومت کے تعاون سے کینسر کی مفت ادویات فراہم کی جارہی تھیں بند کر دی گئیں ہیں، ادویات کی کمی کی وجہ سے مریض زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں جبکہ حکومت نے اس اہم مسئلے پر مکمل خاموشی اخیار کر رکھی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈان نیوز کے پروگرام ذرا ہٹ کے میں کینسر کے مریض نے کال کی اور بتایا کہ پنجاب میں کینسر کے مریضوں کا یہ مسئلہ جون 2020 سے چل رہا ہے تاہم گزشتہ دو ماہ سے یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ مریض نے بتایا کہ یہ بنیادی طور پر یہ سی ایم ایل کا پروگرام تھا جو 2014 میں شہباز شریف نے شروع کیا تھا، اس پروگرام کے تحت 'نورٹیز' کمپنی کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات فراہم کرتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ کمپنی اور حکومت کے معاہدے کے مطابق حکومت کمپنی کو ایک ماہ کے پیسے دیتی تھی جبکہ باقی 11 ماہ کمپنی سی ایف آر کے تحت باقی پیسے برداشت کرتی تھی اور مریضوں کو فری دوا ملتی تھی۔ اب اپریل سے اب تک تقریباً تین ماہ سے یہ ادویات مریضوں کو نہیں مل رہی اور یہ ادویات ان کی زندگی کو بچانے کیلئے ہے۔
مریض نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے جب اس نے متعلقہ اداروں اور محکمہ صحت سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا ہم کمپنی نے جولائی کے آخر تک معاہدہ کرلیں گے مگر جب ہم پرسکرپشن لیکر 'نورٹیز' ادویات لینے پہنچے تو انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہو گیا ہے تو اب ڈھائی سے تین لاکھ روپے کی آپ کی دوا بنے گی۔
کینسر کے مریض نے کہا کہ اس مہنگائی کے دور میں جب لوگوں کے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہیں تو ہم اتنی مہنگی ادویات کیسے لے سکتے ہیں۔
مریض نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب حمزہ شہباز کی حکومت آئی تو پی ٹی آئی کے لوگوں نے اس پر ٹویٹس کیں اور کہا کہ انہوں نے کینسر کے مریضوں کی ادویات ختم کردیں ہیں تاہم اب جب دوبارہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو لیکر پی ٹی آئی رہنماؤں کو مینشن کیا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا البتہ پنجاب حکومت کے سابق معاون خصوصی اظہر مشہوانی نے انہیں ٹوئیٹر پر بلاک کر دیا۔
نیا دور سے بات کرتے ہوئے کینسر کے مریض نے کہا کہ ہماری ادویات کا مسئلہ ہر دو تین مہینے بعد پیدا ہوجاتا ہے، عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں بھی دو تین دفعہ انہیں ایسی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بنے تو حکومت اور پنجاب بنک کے درمیان معاہدہ جس میں کہا گیا کہ پنجاب بنک کینسر کے مریضوں کو ادویات کی مد میں رقم دے گا، اور اس رقم سے وہ خود ادویات خرید سکیں گے مگر ایک مرتبہ صرف 19 ہزار روپے دئیے گئے جبکہ ان کی ایک مہینے کی ادویات کی قیمت تقریباً 1 لاکھ اور 30 ہزار سے بھی زائد ہے۔
خیال رہے کہ پہلے بھی کئی بار پنجاب حکومت کی غیر سنجیدگی اور کمپنی کو عدم ادائیگی کی وجہ سے کینسر کے مریضوں کی ادویات بند کر دی گئی تھیں۔ محکمہ صحت پنجاب نے دوا ساز کمپنی کو 2 ارب 16 کروڑ روپے ادا کرنے تھے، عدم ادائیگی پر نجی کمپنی نے پنجاب کے 5 بڑے ٹیچنگ اسپتالوں کو کینسر کے مریضوں کیلئے مفت ادویات کی فراہمی بند کردی۔
رپورٹ کے مطابق نجی کمپنی کے حکام کی بقایا جات کی ادائیگی کیلئے وزیر صحت اور متعلقہ افسران سے ڈيڑھ سال ميں کئی ملاقاتیں ہوئيں ليکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔ نجی کمپنی نے کینسر کی ادویات کی سپلائی بند کرنے کا تحريری مراسلہ حکومت اور اسپتالوں کو بھيج ديا اور دواؤں کی فراہمی روک دی، واجبات کی ادائیگی تک ادویات کی فراہمی بند رہے گی۔
غیرملکی دوا ساز کمپنی کی جانب سے پنجاب حکومت اورا سپیشلائزڈ ہیلتھ کو خط بھی لکھا گیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ جولائی دوہزار اٹھارہ سے جون دوہزار انیس تک بارہ ارب سے زائد کی ادویات فراہم کی گئیں۔
سال دو ہزار اٹھارہ میں پنجاب حکومت کے ذمہ دو ارب تئیس کروڑ نوے لاکھ روپے جبکہ سال دوہزارانیس کے ایک ارب سات کروڑ واجب الاداہیں،جس کی وجہ سے کیسنر کی دوائی کو بند کیا جا رہا ہے اور بقایاجات کی ادائیگی تک کینسر کی ادویات اسپتالوں کو سپلائی نہیں کریں گے۔