حزب اختلاف کو ملنے والا ریلیف آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے منسلک ہے

چھ ماہ زیر حراست رہنے کے بعد آج رانا ثنا اللہ کو لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت پر آزاد کر دیا ہے۔ اس سے پہلے اسی عدالت نے میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کو رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت  پر آزاد کیا تھا۔ اسی عدالت نے حال ہی میں نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلانے کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے ساڑھے سات ارب روپے کے بھاری بھرکم بانڈز کی شرائط بھی مسترد کر دیں تھیں۔

رانا ثنا اللہ نے جو حراست کے دوران انسانیت سوز حالات میں چھ ماہ گزار کر رہا ہو رہے ہیں، گرفتاری سے پہلے عمران سرکار کیخلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔

کل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی چار ماہ سے زائد حراست کے بعد نیب کی قید سے ضمانت پر آزاد کیا ہے۔ لیکن کل ہی نیب نے ن لیگ کے  مفاہمت پسند اور نرم گفتار سیکریٹری جنرل احسن اقبال کو نارووال سپورٹس کمپلیکس میں اختیارات کے ناجائز استعمال پر گرفتار کیا ہے۔ نیب کی طرف سے دو صفحات پر مضحکہ خیز چارج شیٹ واضح طور ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کی آگ بجھائی جا رہی ہے۔


اسی طرح ایف آئی اے نے ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ، عظمیٰ بخاری اور پرویز رشید کو بھی طلب کر لیا ہے۔

اس سے پہلے نیب نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کی تمام جائیدادیں منجمد کر لی ہیں اور اب شہباز شریف کو نیب نے سات جنوری کو طلب کر لیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو بینظیر بھٹو کی بارہویں برسی سے تین دن پہلے نیب طلبی کی گئی اور لیاقت باغ راولپنڈی میں پ پ پ کو جلسے سے صرف چار دن پہلے جلسے کی اجازت دینے سے زبانی کلامی انکار کیا گیا اور آخرکار پنجاب ہائی کورٹ راولپنڈی ھہائی برانچ کی مداخلت انہیں جلسہ کرنے کی اجازت ملی ہے۔

حکومتی اداروں کی طرف سے مسلسل پکڑ دھکڑ اور عدالتوں کی طرف سے ریلیف ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت کو  ان کی اپنی یقین دہانی کے بعد چھ ماہ کے اندر جنرل باجوہ کو توسیع دینے کیلئے ضروری قانون سازی کی اجازت ملی ہے۔

یہ قانون سازی پارلیمانی ایکٹ یا آئینی ترمیم کی صورت میں ہونی ہے۔ دونوں صورتوں میں حکومت کو حزب اختلاف کے تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ایسی صورت میں حکومت کی طرف سے معاندانہ سرگرمیوں کا مقصد کیا ہے؟


کئی سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مقصد واضح طور ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ حزب اختلاف توسیع کے مسئلے پر مخالفت کرے تاکہ مقتدر حلقے عمران سرکار کی بقا کی ضمانت دیں۔ آیا مقتدر حلقے اس حکومتی پالیسی کو پسند کریں گے، اس کا جواب آنا باقی ہے۔

عمران سرکار جو تیس دسمبر کو اپنے پانچ سو دن مکمل کرے گی اپنی غیرمقبولیت کی انتہا کو چھو رہی ہے۔ معیشت، خارجہ پالیسی اور طرز حکمرانی میں تباہی کی وجہ سے عرمان سرکار مقتدر حلقوں کیلئے ایک اثاثے کی بجائے بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے۔ اس لیے آنے والا سال بتا سکے گا کہ پاکستان ایک جماعتی نظام میں تبدیل ہو گا، عمران سرکار اپنی پالیسیاں تبدیل کرے گی یا عمران حکومت پارلیمان کے اندر سے ہی کسی تبدیلی کے نتیجے میں اپنے اختتام کو پہنچے گی۔

ایگزیکٹو ایڈیٹر