پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم اتحاد کو توڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے

08:35 AM, 24 Dec, 2020

علی وارثی
پاکستان پیپلز پارٹی نے 29 دسمبر کو اپنی پارٹی کا سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی یعنی CEC کا اجلاس بلا لیا ہے۔ اب تک تو اطلاعات تھیں کہ پیپلز پارٹی 27 دسمبر کو رتو ڈیرو میں بینظیر شہید کی برسی کے موقع پر تمام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی PDM کی جماعتوں کی میزبانی کرے گی اور اس سے ایک روز پہلے یعنی 26 دسمبر کو پارٹی کی CEC کا اجلاس بلایا جائے گا۔ تاہم، یہ 29 دسمبر تک پارٹی کی CEC کا اجلاس نہ بلانا کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک اس سوچ کی غمازی کرتا ہے کہ 27 دسمبر سے پہلے پارٹی کوئی بدمزگی نہیں چاہتی لیکن برسی کے فوراً بعد PDM سربراہوں کو بتا دیا جائے گا کہ پارٹی استعفے دینے پر راضی نہیں۔

بدھ کے دن کئی ٹی وی چینلز پر ایسی خبریں بھی دیکھنے میں آئیں کہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں سابق صدرِ پاکستان زرداری صاحب نے یہ واضح مؤقف اپنایا ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے دینا سب جماعتوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا اور اگر استعفے دیے بغیر سینیٹ میں مل کر الیکشن لڑا جائے تو PDM 15 کے قریب سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ استعفے دے کر سینیٹ انتخابات کو متنازع بنایا جانا چاہیے کیونکہ موجودہ حالات میں الیکشن لڑنا اس موجودہ نظام کو طاقت فراہم کرنے کے مترادف ہوگا۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے باخبر صحافی امداد سومرو کا ماننا ہے کہ یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اس کی بنیاد پر PDM اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔ بدھ کو اپنے ایک ویڈیو پاڈ کاسٹ میں امداد سومرو نے کہا کہ جس طرح لندن میں 2007 میں بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں پیپلز پارٹی باقی جماعتوں کے ساتھ اتفاق کرنے سے قاصر تھی اور نتیجتاً اس کو اتحاد سے باہر نکال دیا گیا تھا، ایک بار پھر کچھ ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آنے والی ہے کیونکہ اب بھی پیپلز پارٹی کا مؤقف باقی تمام جماعتوں سے مختلف ہے۔ پیپلز پارٹی خود تو اتحاد سے باہر نہیں آئے گی لیکن PDM کی دیگر جماعتیں اسے باہر نکال سکتی ہیں۔ اور جیسے 2007 میں APDM وجود میں آئی تھی اور ARDکا پلیٹ فارم ختم ہو گیا تھا، ویسے ہی شاید ایک نئے پلیٹ فارم کا آغاز ہو جس میں پیپلز پارٹی حصہ دار نہیں ہوگی۔

امداد سومرو کے مطابق پیپلز پارٹی کے پاس اس فیصلے کے پیچھے بہت سی توجیہات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اگر سندھ اسمبلی کو توڑ دیا جاتا ہے اور حکومت واقعتاً دوبارہ انتخابات کروا دیتی ہے تو کیا یہ جماعتیں پھر بائیکاٹ کریں گی؟ اگر نہیں کریں گی اور دوبارہ انتخاب ہی لڑنا ہے تو استعفے دینے کا فائدہ؟ اور اگر دوبارہ بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور دوسری جماعتیں یا حلقے میں مخالفین کے لئے حلقہ کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ مستقبل میں یہ حلقے واپس انہیں مل جائیں گے؟ 1985 میں پیپلز پارٹی انتخابی میدان کھلا چھوڑ کر دیکھ چکی ہے اور اس کے نتائج اب تک بھگت رہی ہے۔

امداد سومرو کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ فیصلہ زرداری صاحب محض حلقوں کا سوچ کر ہی کر رہے ہوں۔ ان کے مخالفین ان پر ڈیل کا الزام لگائیں گے اور ممکن ہے کہ ڈیل ہو بھی گئی ہو یا آگے جا کر ہو جائے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اندر معتبر ذرائع رکھنے والے ایک اور سینیئر صحافی کو PDM اتحاد کا ٹوٹنا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام جماعتیں قانونی مشورہ لے چکی ہیں اور یہ جان چکی ہیں کہ استعفوں کی صورت میں سینیٹ انتخابات نہیں رکنے والے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کے لئے اب یہ نسبتاً آسان ہے کہ وہ باقی جماعتوں کو اپنے مؤقف پر قائل کر لے اور کوئی بھی استعفا نہ دے۔ یہ فیصلہ ہونا زیادہ قرین از قیاس ہے کہ تمام جماعتیں سینیٹ انتخابات کے بعد ہی استعفوں کا آپشن استعمال کریں کیونکہ حکومت گر بھی جائے سینیٹ نے بہر صورت برقرار ہی رہنا ہے۔ لہٰذا تمام جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ مستقبل کے لئے سینیٹ کو کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔

تاہم، اگر نوبت یہاں تک آ بھی گئی کہ سب جماعتیں استعفوں پر بضد ہوئیں تو بھی پیپلز پارٹی اتحاد توڑنے کی بجائے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کو شاید راضی ہو کر اتحاد کو بچا لے گی۔ پیپلز پارٹی کے نزدیک اس وقت سندھ اسمبلی کو بچانا زیادہ اہم ہے، قومی اسمبلی کی حد تک استعفوں کے لئے غالباً وہ بھی تیار ہو جائیں گے۔ انہوں نے 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران دیے گئے استعفوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح PTI نے سب اسمبلیوں سے استعفے دے دیے تھے لیکن خیبر پختونخوا میں استعفے نہیں دیے گئے تھے، پرویز خٹک وہاں حکومت بھی کرتے تھے اور اسلام آباد میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر ڈانس بھی کیا کرتے تھے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی اگر مراد علی شاہ بھی اسلام آباد آ کر کسی کنٹینر پر کھڑے ہو کر کچھ ٹھمکے لگا لیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری مسلسل رابطے میں ہیں اور وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، باہمی مشاورت سے کریں گے۔

تاہم، سلیم صافی کا ماننا ہے کہ یہ سب کسی لانگ مارچ کی نیت سے نہیں ہو رہا بلکہ پیپلز پارٹی سے جو رابطے کیے گئے تھے، ان سے استفادہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے PDM کے غبارے سے ہوا نکالنے والے بیشتر اقدامات اب تک کیے ہیں اور ’یوں دن بدن یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر اپنے کیسز اور سندھ حکومت کی خاطر اپنے ہی بنائے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے غبارے سے ہوا نکال رہی ہے۔‘

ایک اور سینیئر صحافی نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوچنا بیوقوفی ہے کہ اتحاد نہیں ٹوٹے گا۔ پہلے دن سے اس کو توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اب یہ کوششیں بار آور ثابت ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ PDM اتحاد بکھرنے کی طرف جا رہا ہے اور پیپلز پارٹی اس میں سے اپنے لئے کوئی بڑی ڈیل کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ ان کے مطابق شاید مستقبل میں وفاقی حکومت کا خواب بھی انہیں دکھایا جا رہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی 29 دسمبر کو کیا فیصلے کرتی ہے۔ یہ فیصلے ملکی سیاست کی سمت متعین کریں گے۔ ان سب خدشات اور پیشکشوں پر سوچ بچار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو یہ بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ کیا ماضی میں ان سے کیے گئے وعدے پورے کر دیے گئے ہیں۔ اگر ہاں، تو شاید یہ وعدے بھی پورے ہونے کے امکانات ہیں، وگرنہ جلد یا بدیر ایک بار پھر اپوزیشن جماعتیں کوئی اتحاد بنانے کی کوششیں کرتی نظر آئیں گی اور تب شاید بلاول کا لہجہ نواز شریف سے بھی زیادہ سخت ہو۔
مزیدخبریں