متنازع ٹویٹس کیس میں نامزد پی ٹی آئی سینیٹر اعظم سواتی نے اسلام ہائی کورٹ میں دائر درخواست ضمانت میں نیا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھ پر جن ٹوئٹس کا الزام ہے وہ میں نے پوسٹ نہیں کیں۔
اعظم سواتی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جرم سے میرا تعلق ثابت ہونا لازم ہے۔ جب کہ پروسیکیوشن کے پاس میرے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں۔
اعظم سواتی کے وکیل سہیل خان نے دلائل دیے کہ ٹوئٹس کے اسکرین شارٹس کی بنیاد پر کیس بنایا گیا ہے۔ محض اسکرین شارٹس پر سائبر کرائم کا مقدمہ نہیں بنتا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے دلائل کے دوران ایک بار نہیں کہا کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ اعظم سواتی کا نہیں۔
اعظم سواتی نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی تاہم اسپیشل جج سینٹرل نے متنازعہ ٹویٹ کیس میں نامزد سینیٹر اعظم سواتی کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اعظم سواتی نے ایک ہی جرم 2 بار کیا۔ اس لئے عدالت ملزم کی درخواست ضمانت خارج کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ سینیٹر اعظم سواتی نے اس سے پہلے کبھی ٹوئٹس سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے سابق وفاقی وزیر کے خلاف پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔