قائد اعظم ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے جیسا ہے، دیسی لبرلز قوم کو گمراہ نہ کریں!

قائد اعظم ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے جیسا ہے، دیسی لبرلز قوم کو گمراہ نہ کریں!
دیسی لبرلز دن میں دس مرتبہ قائد اعظم کی 11 اگست والی تقریر بطور صدقہ جاریہ بذریعہ سماجی میڈیا شائع کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ لمبی چوڑی ہے۔ ایک جملے میں سمیٹنے کی کاوش کی جائے تو کچھ یوں ہے:
مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، قادیانی، یہودی، بہائی، مجوسی، صیہونی، اسماعیلی، بوہری، بودھ، دہریے، مشرک، زرتشتی، وغیرہ وغیرہ، سب آپس میں بھائی بھائی اور مل جل کر ایک سر اور لے میں لہک لہک کر گاؤ؛ 'یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے!'

دیسی لبرلز کے پاس 11 اگست سے پہلے یا بعد کا کوئی اور چورن ہے ہی نہیں۔ ادھر مولوی، جہادی و فسادی پٹاریوں میں دیسی لبرلز کا ناطقہ بند کرنے کے لئے بہت سا مال موجود ہے۔ میرے ایسا چٹا ان پڑھ جاہل انگوٹھا چھاپ جس نے زندگی میں کبھی کسی سکول تو دور مدرسے کی شکل بھی نہ دیکھی اور جو مراثیوں بھانڈوں خان صاحبوں کی صحبت میں رہ رہ کر آدھا مراثی بھی ہو، طبلہ بھی بجاتا ہو، کلاسیکل گانا بھی ٹوٹا پجھا گا مر لیتا ہو۔۔۔اس کے پاس بھی 'میڈ ان جناح' اصلی مال دیسی لبرلز کے مقابلے میں زیادہ ہی ہے۔

مثلاً 15 نومبر، 1942 کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا:
'پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ قرآن ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔'

10 ستمبر 1945 کو فرمایا:
'ہمارا پروگرام قرآن میں ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی'

6 دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب:
'وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر قرآن ہے۔'

ان بیانات کی روشنی میں کس منہ سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ کے عزم کہ کالجوں سکولوں میں قرآن ناظرہ بمعہ ترجمہ لازمی پڑھنا پڑے گا، پر تنقید کی جائے؟ کیونکر یہ رونا رویا جائے کہ آئینی ترمیم کر کے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ اگر جناح واقعی اسلام اور قرآن کے ماننے والے ہیں تو صاف لکھا ہے کہ ختم نبوت پر یقین کئے بنا کوئی بھی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ تو اگر اس ملک میں رہنا ہے تو ماننا ہی پڑے گا کہ بھٹو واقعی قائد اعظم کا ادنیٰ شاگرد اور کافر کافر قادیانی کافر۔

سیاست بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ امریکہ کی گود میں بیٹھنا تھا۔ کوئی بیان شیان تو دینا ہی تھا اقلیتوں کے حق میں۔ تو جناح صاحب نے 11 اگست والا راگ گایا۔ درست گایا۔ جس طرح مالکونس گھنی رات میں گایا جاتا ہے۔ اس تقریر کا درست وقت بھی 11 اگست ہی تھا۔

ابھی یہ ملک پوری طرح مسلمان نہیں۔ انشاء اللہ میری آپ کی زندگی میں ہم شیعہ اور اس کے بعد بریلوی کو بھی آئینی ترمیم کے ذریعے کافر قرار دے کر ہی رہیں گے اور اس طرح عمل سے ثابت کریں گے کہ ہم قائداعظم کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل کر رہے ہیں۔

15 اگست 2021 کو یقیناً قائد اعظم ہم سے بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ ہم نے اس افغانستان کو جس پر امریکہ نے قبضہ کر لیا تھا، اپنے طالبان بچوں کی مدد سے آزاد کرا لیا۔ اسلام کا پرچم لہرایا۔ اس ایک برس سے زیادہ عرصے میں اسلام افغانستان کے چپے چپے میں پھیلایا۔ الحمدللہ اب بچیاں اور لڑکیاں سکول، کالج اور یونیورسٹی سے اٹھا کر دوبارہ اپنی اصل جگہ پہنچا دی گئی ہیں یعنی پتا جی یا پتی پرمیشور کے گھر کی چار دیواری میں۔

ہم لوگ اتنے جاہل ہیں، ایسی چیزیں جن کے لئے تاریخ جاننے یا مطالعہ کی ہرگز ضرورت نہیں، جو اَظْہَر مِنَ الشَّمْس یا عقلِ سلیم کی مدد سے واضح ہیں پر ہم ماننے کو تیار نہیں۔ بیچارے ساحر لودھی کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے جب برسوں قبل اس نے اپنے پروگرام میں کہیں غلطی سے ہمیں یہ بتا دیا کہ قائد اعظم نے پاکستان بنانے کے لئے لاکھوں شہید کیے۔

بھئی بات تو سچ ہے۔ یہ 10 لاکھ بندے جو فسادات میں مارے گئے محض Collateral Damage تھا بالکل 150 معصوم بچوں کی شہادت کی طرح جو تحریک طالبان پاکستان نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میں گھس کر مارے۔ لہٰذا طالبانوں کے دادا جی جناب جنرل اسد درانی پر غرانے کا کوئی فائدہ نہیں جب انہوں نے ان بچوں کی شہادت کو Collateral Damage کے متھے مارا۔ اگر پاکستان بنانے کے لئے دس لاکھ Collateral Damage ٹھہرا تو اسے سلامت رکھنے کے لئے کم از کم دس کروڑ کا ہندسہ تو ذہن میں رکھیے۔ قومیں ایسے تو نہیں بنتیں؟

دیسی لبرلز قائد اعظم پر شدید تنقید کرتے ہیں کہ جی ان کی تو کوئی legacy یعنی میراث نہیں۔ گاندھی تھا اصلی statesman۔

گاندھی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے دنیا کے دو عظیم انسان؛ نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ۔ انہوں نے گاندھی کے آدرشوں پر عمل کر کے آزادی حاصل کی یا حقوق لئے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں حضور۔ ہم نے بھی اسلام کے نام پر آدھا ملک بنگالیوں کو دے دیا۔ کیا نا دنیائے اسلام میں ایک اور ملک کا اضافہ۔ پھر ہم نے طالبان پالے جنہوں نے افغانستان آزاد کرایا، پہلے روسی دہریوں سے پھر امریکیوں سے۔ پھر ہم نے جہادی پالے جو دن رات مصروف ہیں بھارت کو لال و لال کرنے میں۔ انشاء اللہ ایک دن کشمیر بھی آزاد ہو گا اور دہلی پر اسلام کا پرچم بھی لہرائے گا۔ لشکر طیبہ، جیش محمد، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، پاکستانی طالبان، پنجابی طالبان، افغان طالبان، داعش۔۔۔ یہ سب قائد اعظم ہی کے پیروکار ہیں جو اسلام کی اصل روح کے نفاذ کے لئے سرگرم ہیں۔ جہاد، ذمیوں سے خراج، بھتہ وغیرہ سب جائز!

اگر قائد اعظم نہ ہوتے تو ہمارا کیا ہوتا؟ ہندو دادا ہوتا اور ہم اسے بھتہ دے رہے ہوتے۔ اللہ کا شکر ہے ہمیں اپنی ایک آزاد گلی ملی جس میں ہمیں اپنی اپنی بساط کے مطابق دادا یا بھائی بننے کا موقع ملا۔ پاکستان نہ بنتا تو اس تنگ، بند اور تاریک گلی میں بھی مودی کی دادا گیری ہوتی۔ بدقستمی کہ ہم نے آدھی سے زیادہ گلی گنوا دی۔ باقی گلی میں دنگا فساد ہو رہا ہے۔ کہیں بلوچی، کہیں پشتون، کہیں سندھی، کہیں پنجابی، کہیں جہادی اور کہیں طالبان اس بچی کچی گلی میں مورچہ زن ہیں۔ میں تو روز ان کے پاس باری باری جرگہ لے کر جاتا ہوں۔
انہیں بتاتا ہوں کہ دو قومی نظریہ دراصل قرآن سے لیا گیا ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ چلو سب مل کر دادا گیری کریں۔ کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ سب ایک دوسرے کو کافر کافر کہہ کر ہمیں مایوس کر دیتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ ابھی پاکستان کو اور بہت کچھ کرنا ہے اسے قائد اعظم کا اصلی پاکستان بنانے کے لئے۔

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو گورا سرکار بھی ہم ہی میں سے تھی۔ اہل کتاب ہے بھئی۔ ہندو تو نہیں۔ مسلمان تو ہو ہی نہیں سکتا مسلمان جب تک پچھلے مذاہب پر ایمان نہ لاوے۔ اہل کتاب سے مسلمان شادی کر سکتا ہے۔ اسی کارن جناح صاحب نے انگریز کا مشیر بننے میں تامل نہ کیا۔ پورا ہندوستان تو انگریز اور سرمایہ دار امریکہ و یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا اور اس وقت ہم سب روس کی طرح لادین ہوتے۔ سوچیں کتنا عظیم سانحہ جناح صاحب نے ہونے سے بچا لیا۔ ہندو سے ٹکر لی۔ انگریز نے اہل کتاب والا بھائی بن کر مدد کی۔ کانگریس کے ہوش ٹھکانے لگائے۔ بنا کے اور لے کے دکھایا پاکستان۔

جناح صاحب کو اردو سے عشق تھا۔ اردو کی ترویج کے لئے سب کو ناراض کر کے بنگلہ دیش ہی میں ایک تقریر انگریزی میں کی جس میں فرمایا کہ ملک کی قومی زبان اردو ہوگی۔ جہاں سے یہ چلی یعنی ہندوستان، وہاں اس کا حال بہت ہی برا۔ ہم پنجابیوں نے سینچا اسے۔ اس دوران پنجابی کا بیڑہ غرق کر دیا۔ یہ بھی Collateral Damage ہی سمجھیں۔ پھر دیکھیں سادگی کیسے اختیار کی۔ کوٹ، پینٹ ٹائی خیرباد اور شیروانی بمعہ قراقلی ٹوپی پہننا شروع کر دی۔ اپنا پاٹے خان بھی اب سوٹ ٹائی میں نظر نہیں آتا۔ پشاوری چپل، واسکٹ اور شلوار قمیض پہنتا ہے۔

کچھ مزید اقدامات کی ضرورت ہے جسے کر کے جناح کے پاکستان کی مزید بڑھت کی جا سکتی ہے۔ مثلاً قائد اعظم کرکٹ اور سنوکر کھیلتے تھے۔ ان دونوں کو قومی کھیل قرار دیا جائے۔ دیکھا ہے کسی کو گلی میں ہاکی کھیلتے؟ یا کسی میدان میں؟ بے کار میں قومی کھیل بنایا ہوا ہے۔ اصل قومی کھیل تو ہے کرکٹ یا جہاد۔ کرکٹ بھی جہاد سمجھ کر ہی کھیلا جاتا ہے۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔