سینیٹر مشتاق اور مفتی صاحب دونوں کی سادگی کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ غالباً یہ دونوں پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کی اس لہر سے ناواقف رہ گئے جس میں لڑکیوں کے سکول بند کرائے جاتے رہے اور پھر 16 دسمبر 2014 کا وہ ہولناک دن آ پہنچا جب آرمی پبلک سکول پشاور میں بچوں سمیت ڈیڑھ سو کے قریب معصوم انسانوں کا خون بے دردی سے بہا دیا گیا اور پاکستانی طالبان نے فخریہ انداز میں اس کی باقاعدہ ذمہ داری قبول کی۔ یہی وہ گھڑی تھی جب طالبان کے ساتھ جاری ان مذاکرات کا سلسلہ اختتام کو پہنچا جن میں پاکستانی طالبان کے نمائندگان کے طور پر لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز اور مولانا سمیع الحق کے علاوہ پروفیسر ابراہیم بھی شامل تھے جو اب جماعت اسلامی کے نائب امیر ہوا کرتے ہیں۔
پاکستانی طالبان کے کمانڈرز کو شہید کہنے والے جماعت اسلامی کے امیر منور حسن صاحب کو دباؤ پر ہٹا دیا گیا تھا لیکن پھر بھی جماعت اور اس کے ہم عقیدہ مفتیان کی زبان سے طالبان کی کھل کر مذمت تو درکنار، ایک بے ضرر سی ٹویٹ حتی کہ پیار بھری تاکید بھی سننے سے اب تک کان محروم رہے۔ اگست 2021 میں جب امریکہ نے افغانستان کا اقتدار طالبان کے سپرد کیا تو اس پر پاکستان میں شہر شہر جشن منانے والوں میں جو کردار پیش پیش تھے وہ پوشیدہ نہیں ہیں۔
جس طرح سینیٹر مشتاق کو بہت اہمیت دی گئی، بالکل اسی طرح جماعت اسلامی سے منسلک خیراتی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کی بھی حالیہ دنوں میں ایسے تشہیر کی گئی جیسے وہ کوئی غیر نظریاتی تحریک ہے۔ نظریات کی بات کریں تو جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا پیجز پر ببانگ دہل مولانا مودودی کو اپنا بانی اور مفکر اعلیٰ قرار دیا جاتا ہے اور مولانا کی تحریر کردہ تصانیف کو اپنا اساسی لٹریچر قرار دیا جاتا ہے۔ جو لٹریچر جماعت اسلامی کے اداروں اور ان کے کارکنان کو نظریاتی اساس فراہم کرتا ہے، انہی میں سے ایک کتاب کا عنوان 'پردہ' ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
ابوالاعلیٰ مولانا مودودی کی تصنیف 'پردہ'
عنوان کے برخلاف اس کتاب کا بمشکل 10 ہی فیصد حصہ اس بات کا احاطہ کرتا ہے کہ کس کس سے اور کتنا پردہ کرنا چاہئیے جبکہ بقیہ 90 فیصد میں عورت کے حوالے سے پہلے ہی قائم کردہ رائے کی تائید میں دلائل کا انبار اکٹھا کیا گیا ہے۔ مثلاً مغربی معاشرے کی اخلاق باختگی، آزادی کے نام پر عورت کا استحصال، بن بیاہی مائیں، ناجائز بچے، نکاح کا ختم ہوتا ادارہ، بکھرتے ہوئے خاندان، طلاق کی خوفناک شرح وغیرہ وغیرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بشارت دی گئی ہے کہ اب مغرب کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
قدیم یونان اور سلطنتِ روما میں فواحش کی فراوانی اور عورت کی حرمت و عزت کی ارزانی کا خوب نقشہ کھینچا گیا ہے۔ پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اگر اس وقت تک کی (کتاب 1940 میں لکھی گئی) عظیم مسلم بادشاہتوں یعنی اموی، عباسی، فاطمی، عثمانی یا مغلیہ ادوار میں عورت کو نصیب ہونے والے کسی قابلِ رشک مقام کی نشاندہی بھی ہو جاتی تو قاری کے لئے موازنہ کرنا کتنا آسان ہو جاتا۔
کتاب میں کئی مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے قارئین سے مخاطب ہوتے ہوئے صاحبِ کتاب منبر پر نہیں بلکہ آسمان پر براجمان ہیں اور عورت کا جو روپ ان کے ذہن میں ہے اسے ہاتفِ غیبی کی طرح پیش کررہے ہیں۔ مثلاً:
'اسلامی نظمِ معاشرت میں تو عورت کی آزادی کی آخری حد یہ ہے کہ حسبِ ضرورت ہاتھ منہ کھول سکے اور اپنی حاجات کے لئے گھر سے باہر نکلے۔'
'عورت کو خانہ داری کے ماسوا دوسرے امور میں حصہ لینے کی مقید اور مشروط آزادی اسلام میں دی گئی ہے۔'
'صرف یہی نہیں کہ عورت پر بیرون خانہ کی ذمہ داری ڈالنا ظلم ہے بلکہ وہ اس کی اہل بھی نہیں۔'
'فوج کی مثال کو آپ کہہ دیں گے کہ یہ زیادہ سخت قسم کے فرائض ہیں مگر پولیس، عدالت، انتظامی محکمے، سفارتی خدمات، ریلوے، صنعت و حرفت اور تجارت ان میں سے کس کی ذمہ داریاں ایسی ہیں جو مسلسل قابلِ اعتماد کارکردگی کی اہلیت نہ چاہتی ہوں؟ پس جو لوگ عورتوں سے مردانہ کام لینا چاہتے ہیں وہ عورت کو ناعورت بنا کر نسلِ انسانی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔'
اپنے مؤقف کی تائید میں مولانا 'سائنسی تحقیق' کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ؛
'ایامِ ماہواری میں ایک عورت دراصل بیمار ہوتی ہے۔ یہ ایک بیماری ہی ہے جو اسے ہر مہینے لاحق ہوتی ہے۔ اس زمانے میں عورت کا نظامِ عصبی نہایت اشتعال پذیر ہو جاتا ہے۔ ایک عورت جو ٹرام کی کنڈکٹر ہے، اس زمانے میں غلط ٹکٹ کاٹ دے گی اور ریزگاری گننے میں الجھے گی۔ ایک موٹر ڈرائیور عورت گاڑی آہستہ آہستہ اور ڈرتے ڈرتے چلائے گی اور ہر موڑ پر گھبرا جائے گی۔ ایک لیڈی ٹائپسٹ غلط ٹائپ کرے گی، ایک بیرسٹر عورت کی قوتِ استدلال درست نہ رہے گی، ایک مجسٹریٹ عورت کی قوتِ فہم اور قوتِ فیصلہ دونوں متاثر ہوں گے۔ ایک دندان ساز عورت کو اپنے مطلوبہ اوزار نہ ملیں گے۔ ایک گانے والی اپنے لہجے اور آواز کی خوبی کھو دے گی۔ غرض یہ کہ وہ کوئی ذمہ دارانہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔'
'ایامِ ماہواری سے بڑھ کر حمل کا زمانہ عورت پر سخت ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں کئی مہینے اس کا نظامِ عصبی مختل رہتا ہے۔ اس کا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس میں تلوّن پیدا ہوتا ہے۔ خیالات پریشان رہتے ہیں۔ ذہن پراگندہ ہوتا ہے۔ شعور اور غور وفکر اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت بہت کم ہو جاتی ہے۔'
'اصلاحِ باطن' نامی باب میں عورت کی حیا پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد اس کی ذات سے جڑے دل کے چور، فتنۂ نظر، جذبۂ نمائشیِ حسن، فتنۂ زبان، فتنۂ آواز، فتنۂ خوشبو، فتنۂ عریانی پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔
تعلیم کے باب میں مولانا دو ٹوک فرماتے ہیں؛
'عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اس کو ایک بہترین بیوی، بہترین ماں اور بہترین گھر والی بنائے۔ اس کا دائرۂ عمل گھر ہے، اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہئیے جو اس دائرے میں اسے زیادہ مفید بنا سکتے ہیں۔'
مغرب کے شہوانی ماحول کی بڑی تفصیلی، رنگین اور مسالہ دار تصویر کشی کا حاصل ہمیں یوں پیش کرتے ہیں:
"طلاق اور تفریق کی اس کثرت کا علاج اب یہ نکالا گیا ہے کہ رحم دلانہ شادی (Compassionate Marriage) یعنی ' آزمائشی نکاح' کو رواج دیا جائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ مرد اور عورت پرانے فیشن کی شادی کیے بغیر کچھ عرصے تک باہم رہیں اور اگر اس یکجائی میں دل سے دل مل جائے تو شادی کر لیں۔"
مولانا مودودی کی تصنیف 'پردہ' کا مختصر جائزہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح دہائیوں سے پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نسل میں بھی مردانہ احساس برتری اور عورتوں کی تحقیر کے نظریات کو سیاسی مفادات کے تحت بلا روک ٹوک پھیلنے دیا جاتا رہا ہے۔ نتیجہ کچھ یوں نکلا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی امتیاز کی تازہ ترین رپورٹ میں دنیا میں پست ترین دو اقوام پاکستان اور افغانستان ہی ہیں۔
پاکستان اور افغانستان میں عورتوں کے حالاتِ زیست بہتر کرنے کے لئے لازم ہے کہ بنیاد پرستوں کے جال میں پھنسے ہوئے عوام کو رہائی دلائی جائے۔ داعش سے لے کر طالبان تک اور بوکو حرام سے الشباب تک؛ یہ ایک بین الاقوامی نظریاتی اکائی ہے۔ 'پردہ' میں پرچار کردہ خیالات ان تمام تنظیموں کی مشترکہ بنیاد ہیں۔ یہ سوچ موقع محل کے لحاظ سے اپنی شکل تبدیل کرنے پر قادر ہے۔ ان کے ماضی، حال اور انتہا پسند ایجنڈے سے ناصرف خود باخبر رہنا چاہئیے بلکہ عوام کو بھی آگاہی فراہم کرنی چاہئیے۔