ڈان نیوز سے حاصل معلومات کے مطابق ایک غیر سرکاری تنظیم کی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سال 2019 آزادی اظہار رائے کے حوالے سے کافی پریشان کن سال ثابت ہوا۔ انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے سے روکنے پر مجبور کیا گیا اور تقریباً 10 لاکھ ویب سائٹس بلاک کی گئیں۔
ڈیجیٹل حقوق، معلومات کے حق، آزادی اظہار رائے پر عدالتی، قانونی اور قانون سازی کی پیشرفت کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ حکومت شہری آزادیوں پر حملے کر رہی ہے اور اس سلسلے میں لبرل انتظامی کی حدود اور قدامت پسند پالیسی تجاویز کا مجموعہ اختیار کیا۔
انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈوکیسی اینڈ ڈیولپمنٹ نے ’جابرانہ سینسرشپ: خاموش ہوتا ہوا پاکستان‘ کے عنوان سے اپنی سالانہ رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ کے مطابق سینسرشپ کی جانب سب سے بڑی کوشش تمام میڈیا ریگولیٹرز کو واحد اور مرکزی ادارے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) میں تبدیل کرنا ہے۔ جسے عوام، میڈیا اور سول سوسائٹی نے مشترکہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نجی ٹیلی ویژن چیننلز کو پورے سال ’ہدایات، ایڈوائزیریز اور اظہار وجوہ کے نوٹسز‘ جاری کرنے میں مصروف رہی۔
اسی طرح اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں کی لائیو پریس کانفرنسز پر نہ صرف ڈیفیکٹو پابندی عائد کی گئی بلکہ شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ مثلاً عوام ورکرز پارٹی کی بھی کسی قسم کی کوریج پر پابندی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے برقی جرائم کی روک تھام کے قانون پیکا کی دفعہ 37 کے تحت حاصل اختیارات کے ذریعے مختلف وجوہات مثلاً فحش یا گستاخانہ مواد یا ریاست، عدلیہ اور فوج کے خلاف جذبات پر 9 لاکھ سے زائد ویب سائٹس بلاک کیں۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس متعدد اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے انٹرویوز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے سے روکے گئے۔ علاوہ ازیں گذشتہ سال کے دوران کم از کم 7 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ متعدد حملے کا نشانہ بنے یا زخمی ہوئے ان میں سے کچھ کو حکام کی جانب سے قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔