جس وقت ججز پر الزامات لگائے جا رہے تھے، اس وقت کمرہ عدالت میں وزیر قانون فروغ نسیم اور حکومتی ممبر قومی اسمبلی ملیکہ بخاری اور بیرسٹر شہزاد اکبر بھی موجود تھے، تاہم ان کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ بدھ کے روز جب فل بنچ عدالت لگی، تب بھی یہ تین اشخاص وہاں موجود تھے۔
اس روزججز کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل کو کہا گیا کہ وہ بغیر تیاری کے کورٹ آ جاتے ہیں۔ جب کوڈ آف کنڈکٹ کی بات کی جاتی ہے تو آپ ہمیں دائرہ سماعت پڑھانے لگ جاتے ہیں اور جب بات دائرہ سماعت کی ہو تو آپ ہمیں کوڈ آف کنڈکٹ پڑھانے لگ جاتے ہیں۔
بنچ کے صدرعمر عطا بندیال کی جانب سے کہا گیا کہ انور منصور خان نے ایک جج کی فیملی کے بارے میں بات کی ہے۔ جسٹس بندیال نے اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ وہ جج کے خلاف ریفرنس دائر کر رہے تھے یا ایف آئی آر درج کروا رہے تھے؟
اٹارنی جنرل نے اس بے عزتی کے بعد استعفا دے دیا لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا کہ انہوں نے استعفا پاکستان بار کاؤنسل کے کہنے پر دیا ہے جب کہ وزیر قانون کے مطابق استعفا حکومتی مطالبہ پر دیا گیا ہے۔
ظاہر تو حکومت نے سابق اٹارنی جنرل کے الزامات سے دوری اختیار کر لی ہے، تاہم اب پاکستان بار کاؤنسل نے وزیر قانون فروغ نسیم سے بھی استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ججز کی جاسوسی کا معاملہ کس قدر سنگینی اختیار کرتا ہے کیونکہ یہ معاملہ اٹارنی جنرل کے بعد وزیر قانون اور خود وزیر اعظم کی وکٹ بھی گرا سکتا ہے۔