تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا آرڈیننس 2022ء کے خلاف ترجمان ن لیگ مریم اورنگزیب نے درخواست دائر کی۔ درخواست میں وزارت قانون، صدر پاکستان اور ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پیکا قانون میں آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی آئین سے متصادم ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ پیکا آرڈیننس پر عملدرآمد روکا جائے۔
ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے، حکومت کے خلاف تنقید کی اجازت نہیں، تنقیدکی تو 5 سال جیل میں گزارنا پڑیں گے، پیکا آرڈیننس آئین کی خلاف ورزی ہے، یہ حکومت نہیں آرڈیننس فیکٹری ہے، پیکا ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 89 سے متصادم ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو آئین اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے بھی پیکا ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کو آزائے رائے کے اظہار کے خلاف قرار دے دیا۔ وفاقی وزیر آئی ٹی سید امین الحق نے متنازعہ پیکا ترمیمی آرڈیننس پر وزیراعظم عمران خان کو مراسلہ ارسال کردیا ہے، جس میں انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ ترامیم سے متفق نہیں کیونکہ اس میں اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، ترامیم میں بلاضمانت گرفتاری اور فیک نیوز کی تشریح نہ ہونے سے ملک میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
جبکہ گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا۔عدالت نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عوامی نمائندے کے لیے تو ہتک عزت قانون ہونا ہی نہیں چاہئیے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ زمبابوےاوریوگنڈابھی ہتک عزت کوفوجداری قانون سےنکال چکے۔ وکیل پی ایف یوجے عادل عزیز نے کہا کہ جو خودکو عوامی نمائندہ کہتا ہے وہ بھی تنقید سے نہ گھبرائے۔ جس کے بعد عدالت نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پی ایف یو جےکی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔