چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف تمام درخواستیں یکجا کر دیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور پی ایف یو جے کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریماکس دیے کہ عدالت کو معلوم ہے کہ دنیا ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے، عدالت میں جو کیس آیا وہ اس عدالت کے لیے شاکنگ تھا، حکمران جماعت کی ایک رکن اسمبلی نے پڑوسی سے ماحولیاتی ایشو پر شکایت کی، ایف آئی اے نے اسے ہراساں کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کو ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اختلاف رائے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی پروسیڈنگز چل رہی تھیں کہ یہ معاملہ اب عدالت کے سامنے آ گیا، یہ بات تشویشناک ہے کہ قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، یہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار کیوں نا دے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی نجی ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں، ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھی اس نے ایسا کیا، جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے سیاسی جماعتیں اور ورکرز اس بات کے ذمہ دار ہیں، جب سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنائیں گی تو پھر اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ اداروں کا بنیادی حق نہیں ہوتا، وہ اس میں کیسے آسکتے ہیں؟ سول قوانین کو زیادہ بہتر بنائیں، عدالت بھی آپ کی مدد کرے گی، ہتک عزت کا مقدمہ بہتر کر لیں، اس کا فیصلہ 90 دن میں ہو، عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن20 کوکیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں ہے، قانون کے غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں، میں اس کے دفاع کے لیے تیار ہوں مگر یہ بات بھی کہتا ہوں کہ سیف گارڈ ہونے چاہئیں، میرے ذہن میں ایک پلان ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا عدالت کا فرض ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام کرے، آپ نے آرڈیننس بنایا، سینیٹ کو اسے منظور یا مسترد کرنے دیں، آرڈیننسز کی اس لیے منظوری دی گئی ہے کہ 33 سال ملک آرڈیننسز پر چلتا رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کچھ عدالتی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 89 سے متعلق تشریح کی گئی ہے، آپ کہتے ہیں ایف آئی اے جا کر گرفتار کرے گا اور ٹرائل کے اختتام تک وہ قید رہےگا، یہ ایک ڈریکونین قانون ہے، آپ نے تو اسے نیب کے قانون سے بھی زیادہ بدتر کردیا ہے، اس کے ذریعے تو آپ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں، اس کے بعد تو لوگوں نے ڈرکے مارے کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ یہ آپ نے ایف آئی اے کو کس کام پر لگا دیا ہے؟ آپ نے ایف آئی اے کو پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگادیا ہے، اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہوسکتی ہے کہ اس کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگرعمل نہ کیا، اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہوسکتی ہے کہ انہوں نے پھرایس او پیز کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاہور کے 2 صحافیوں کو جس طریقہ سے اٹھایا گیا، انہیں بتایا بھی نہیں کہ ایسا کیوں کیا؟ یہ تو بہت سادہ سا معاملہ ہے، جب آرڈیننس بن جائے تو دونوں ایوانوں سے منظوری ہوتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولز پڑھ کر بتاؤں گا، دونوں ہاؤسز نہیں، ایک ہاؤس سے بھی منظوری لی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر ایک ہاؤس بھی آرڈیننس کو مسترد کر دے تو وہ مسترد تصور ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت سے ممالک ہیں جہاں ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کرمنلائز نہیں کیا گیا، کوئی پردے دار خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونہ کرتی ہیں تو کیا یہ آزادی اظہار رائے ہے، جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اس کو چیلنج کیا ہے۔
لطیف کھوسہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اسے چیلنج کیا گیا ہے جبکہ بیرسٹر جہانگیر جدون کا کہنا تھا ن لیگ کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اپوزیشن کی سینیٹ میں اکثریت ہے، آپ کے پاس اختیار ہے کہ اسے مسترد کر سکتے ہیں، آپ پارلیمنٹ میں جاکر اپنا کردار ادا کریں، عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے، سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ کیا کسی کے بیڈ روم کی ویڈیو بناکر وائرل کرنا یا جعلی ویڈیو اپلوڈ کرنا ٹھیک ہے؟ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے قبل کا سیکشن 20 بھی دیکھ لیں، جتنے کیسز آئے اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ایف آئی اے کو اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے، ایف آئی اے نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر لیپ ٹاپ وغیرہ اٹھا لیے، ایف آئی اے نے 2 صحافیوں کو بغیر نوٹس اٹھایا اور وہ کافی عرصہ غائب رہے، ایف آئی اے سے پوچھا کہ کیوں گرفتار کیا تو بتایا کہ کمپلینٹ موصول ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک صحافی کو وی لاگ میں کتاب کا حوالہ دے کر ہسٹری بیان کرنے پر گرفتار کیا گیا، کیا اب کوئی تاریخ بھی بیان نہیں کر سکتا؟ 70 سال میں ہم ملک کو اس جگہ لے آئے اور اب ڈرتے ہیں کہ کوئی بات بھی نہ کرے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں بادشاہت بچانے کے لیے ہتک عزت کے قانون کو کرمنلائز کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے ختم کر دیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ برطانیہ میں احتساب عدالتیں بھی نہیں، وہاں حکمران بعد میں کہیں بھاگ بھی نہیں جاتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو ماحول بنا ہوا ہے اور معاشرے میں جتنی نفرت ہے اس میں آپ کیا توقع کرتے ہیں؟ آپ کو اندازہ ہے کہ ترمیم میں پبلک باڈیز کی ساکھ کو بھی بچانے کی کوشش کی گئی ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی نے کوئی تنقید کی تو وہ فوری گرفتار ہو جائے گا، عدالت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سوشل میڈیا پر کیا ٹرینڈ چل رہا ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ میں تو نیب کے قانون میں بھی گرفتاری کے اختیار کے خلاف تھا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جتنا نقصان نیب اور اس کے قانون نے پہنچایا ہے، اس وقت کچھ کہنا نہیں چاہتا۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق سیاسی تقاریر پر نہیں ہو گا، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریر پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا، پبلک باڈیز یا اداروں کا کون سا بنیادی حق ہوتا ہے؟ انہیں تو تنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اس آرڈیننس کو پڑھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل19 کی خلاف ورزی ہے، یہ بھی بتائیں کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ آرڈیننس لے کر آئے؟
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا جسے ملتوی کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یوگنڈا میں بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال دیا گیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بیلجیم، جرمنی اور آئس لینڈ میں ہتک عزت کا جرم کرمنلائزڈ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وہاں کی عدالتوں کے فیصلے بھی پڑھ لیں،کوئی شکایت کرے کہ حکومتی رکن نے یہ بات کی ہے تو کیا آپ انہیں گرفتار کریں گے؟
سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ روز سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے، جو ہو ا ایسا بھی نہیں کہنا چاہیے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے خالد خاوید خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ کے لیے بہت مشکل ٹاسک ہے، جس پر سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا میں اٹارنی جنرل رہا ہوں، سمجھ سکتا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ میں تو ایک صحافی کو قتل کر دیا گیا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی حکومت میں ہو وہ آزادی اظہار رائے کو پسند نہیں کرتا۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے کلائنٹ محسن بیگ کے گھر سے لیپ ٹاپ بھی لے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو جرنلسٹس کے ذرائع پر بھی پہنچ گئے ہیں، جس پر خالد جاوید خان نے کہا کہ صحافیوں سے ان کا سورس نہیں پوچھا جا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نظر آرہا ہے کہ گھٹن کا ماحول ہے، اگر اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ ہوتی تو یہ ملک ٹوٹتا نہیں، عدالت اجازت نہیں دے گی کہ ایف آئی اے بدمعاش ایجنسی بنے، دنیا کہاں پر جا رہی ہے؟ ہم بھی تو اقوام متحدہ کا حصہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو کیا ضرورت ہے کہ عدلیہ کی عزت کے لیے قانون بنائیں؟ اس کورٹ نے تو توہین عدالت کو بھی کافی حد تک کمزور کر دیا ہے، اگر عوام کا اعتماد ہو تو عدلیہ یا پبلک آفس ہولڈرز کو نہیں ڈرنا چاہیے، اس ملک میں آئین ہے اور لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں، سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا پر تحفظات ہیں تو فالورز کو سمجھائیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ دلائل کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس دوران ایف آئی اے کوئی گرفتاری نہیں کرے گا؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اس سے متعلق آپ کا آرڈر موجود ہے اس میں توسیع کر دیں، اگر ایف آئی اے نے ایسا کیا تو میں کورٹ میں نہیں آؤں گا، پیکا ترمیمی آرڈیننس کے اثرات اور نتائج کو کابینہ ارکان سے ڈسکس کروں گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق درخواستوں کی مزید سماعت 10 مارچ تک ملتوی کر دی۔