یوٹیوب چینل پر اپنے وی-لاگ میں سینیئر صحافی اعزاز سید سے بات کرتے ہوئے عمر چیمہ نے بتایا ہے کہ آڈیو لیکس کا طوفان ابھی تھمتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ کچھ آڈیو لیکیس آچکی ہیں اور آئندہ کچھ دنوں میں مزید آنے کا خطرہ ہے۔ یہ وہ آڈیو ٹیپس ہیں جس میں ماضی اور حال دونوں کی ریکارڈنگز ہیں۔ ان میں حاضر سروس اور سابق دونوں طرح کے جج صاحبان کی مختلف کیسز کے حوالے سے غیر متعلقہ افراد سے گفتگو ریکارڈ ہے۔
سماعت کے دوران، حال ہی میں سابق وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کی جسٹس سیدمظاہر علی نقوی کے ساتھ ہونے والی گفتگو لیک ہونے کے حوالے سے بھی بحث ہوئی جس پر لارجر بنچ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آڈیو ٹیپنگ نہیں ہونی چاہیے لیکن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ایسا کام نہیں ہونا چاہیے لیکن ججز کو بھی اپنا 'کنڈکٹ' درست کرنے کی ضرورت ہے۔
صحافی نے کہا کہ یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی کیونکہ نہ ہی آڈیو ٹیپنگ کے عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی توجیح دی جاسکتی ہے، نہ ہی 'کنڈکٹ کی خلاف ورزی' کے عمل کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن لا کے تحت جب کسی ادارے سے انفارمیشن مانگی جاتی ہے تو وہ 'ہارم ٹیسٹ' اپلائی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان تفصیلات کو پبلک کرنے سے فائدہ زیادہ ہو گا یا نقصان۔ اس حوالے سے عدلیہ کو کوئی سخت قدم اٹھانا چاہیے۔ وائر ٹیپنگ کے لئے امریکی ٹریبیونل سیٹ اپ کا حوالہ دیتے ہوئے عمر چیمہ نے کہا کہ انہیں ایک ایسا سیٹ اپ بنانا چاہیے تاکہ صرف ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ساری اتھارٹی اور پاور نہ دی جائے۔ ان کو کسی جگہ پر جوابدہ ہونا چاہیے۔
اس سارے معاملے میں فی الحال جج صاحبان کو یا سیاستدانوں کو اعتراض ہو رہا ہو گا، عمران خان کو اعتراض ہو رہا ہو گا لیکن المیہ تو یہ ہے نا کہ جب جو شخص حکومت میں ہوتا ہے تو مخالف شخص کی ٹیپنگ ہو رہی ہو تو کوئی پرواہ نہیں کی جاتی لیکن جب خود پر بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ تو ایک ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ وہ آپ کے لئے غلط ہے وہ دوسروں کے لئے بھی غلط ہونا چاہیے۔
اس پر اعزاز سید نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ جو بھی ڈسکلوژر کرنے والا ہوتا ہے چاہے وہ عدلیہ میں ہو یاانتظامیہ میں، اس کے تحفظ کے لئے کوئی قانون ضرور ہونا چاہیے۔ 'وسٹل بلوور پروٹیکشن لا' ضرور ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔ بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔ ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں چیزیں واضح نہیں ہیں۔ دیکھنا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی سنگین حالات ہوں توانتخابات کاوقت بڑھ سکتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا آئین پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔
اس سے قبل 16 فروری کو چوہدری پرویز الٰہی کی مبینہ ٹیلی فون کال لیک ہوئی اور اس میں غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق سپریم کورٹ جج کے ساتھ ان کی مبینہ بات چیت منظرعام پر آئی تھی۔
چوہدری پرویز الٰہی کی تین آڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ تین حصوں پر مشتمل آڈیولیکس کے پہلے حصے میں مبینہ طور پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو محمد خان کا کیس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں لگوانے کی ہدایت دیتے ہوئے سنا جاسکتا ۔ آڈیو میں سابق وزیراعلیٰ ہدایت کر رہے ہیں کہ کوشش کرکے کیس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں ہی لگوایا جائے۔کیونکہ وہ دبنگ ہیں۔
دوسری آڈیو میں پرویز الٰہی صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کو یہی ہدایت دے رہے ہیں کہ محمد خان کا کیس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں لگوایا جائے۔ عابد زبیری نے پوچھا کہ کیا کیس کی فائل تیار ہے تو پرویز الٰہی نے کہاکہ وہ جوجا صاحب سے پوچھیں۔ پرویز الٰہی نے عابد زبیری سے کہا کہ یہ بات کسی کو بتانی نہیں ہے۔ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔ عابد زبیری نے پرویزالٰہی کو یاد دلایا کہ مظاہر علی نقوی کی عدالت میں سی سی پی او غلام محمد ڈوگر کا کیس بھی لگا ہوا ہے۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ میں بات کرتا ہوں۔
جبکہ تیسری آڈیو میں پرویز الٰہی اورجج مظاہرعلی نقوی کی مبینہ گفتگو ہے۔ پرویز الٰہی نےان سے پوچھا کہ کیا محمد خان آپ کے پاس ہے جس پر مظاہر علی نقوی نےکہا کہ جی میرے پاس ہے۔ پرویز الٰہی نے کہاکہ میں آرہا ہوں بغیر کسی پروٹوکول کے۔ مظاہر نقوی نے کہا کہ آنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن پرویز الٰہی نے کہاکہ میں قریب پہنچ چکا ہوں بس سلام کرکے چلاجاؤں گا۔
آڈیو لیکس کے حوالے سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے مؤقف اختیار کیا کہ وکیل کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر عابد ایس زبیری نے اس سے قبل آڈیو لیک ہونے کو جعلی قرار دیا تھا۔
زبیری نے کہا تھا کہ “میں نے آڈیو ریکارڈنگ سنی ہے اور میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ آڈیو ٹریٹ کر کے بنائی گئی ہے۔”