ایران سے آئے پارسی جنہوں نے برصغیر کی صورت گری میں مرکزی کردار ادا کیا

عام تصور کے برخلاف پارسی آگ کی پوجا نہیں کرتے بلکہ پارسی مذہب کے مطابق چاروں بنیادی عناصر؛ پانی، ہوا، سورج اور آگ پاک اور مقدس عناصر ہیں اور وہ ان کی تقدیس کو قائم رکھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ان کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں میں ہر وقت آگ روشن رکھی جاتی ہے۔

ایران سے آئے پارسی جنہوں نے برصغیر کی صورت گری میں مرکزی کردار ادا کیا

226 عیسوی سے 651 عیسوی تک ریاست فارس (موجودہ ایران) میں ساسانی سلطنت قائم تھی جس کا سرکاری مذہب زرتشتی تھا۔ اس مذہب سے جڑے لوگ پارسی کہلاتے تھے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب جزیرہ عرب کے مسلمانوں نے ریاست فارس کو فتح کر لیا تو اس کے ساتھ ہی ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ ریاست فارس کے علاقوں میں بسنے والے کچھ پارسیوں نے اسلام قبول کر لیا اور بعض نے جزیہ دے کر فارس ہی کے علاقوں میں رہنا پسند کیا۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اس کمیونٹی نے فارس سے نقل مکانی شروع کی اور نویں اور دسویں صدی کے دوران برصغیر کے علاقوں میں آ کر آباد ہونا شروع ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران بڑی تعداد میں پارسی ہجرت کر کے گجرات اور مالابار میں آن بسے۔ بعدازاں ان میں سے کچھ خاندان بمبئی، کراچی، لاہور، راولپنڈی اور کوئٹہ میں بھی قیام پذیر ہو گئے۔

سجاد اظہر پارسیوں کی برصغیر میں آمد سے متعلق ایک روایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
'کہا جاتا ہے کہ جب وہ (پارسی) مہاجر بن کر (ہندوستان میں) گجرات کے ساحلوں پر آئے تو وہاں کے مقامی حکمران جادی رانا نے انہیں دودھ سے لبالب بھرا پیالہ بھیجا۔ اس میں رمز یہ تھی کہ ہمارا ملک پہلے ہی لوگوں سے بھرا ہوا ہے اس میں کسی اور کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے جواب میں پارسیوں کے مذہبی پیشوا نے اس دودھ میں شکر ملا کر پیالہ راجہ کو واپس بھجوا دیا۔ مطلب یہ تھا کہ ہم دوسروں کی جگہ نہیں گھیریں گے بلکہ ہمارے دم سے ملک کو فائدہ ہو گا (یعنی ہم دودوھ کو میٹھا بنا دیں گے)۔' وہ مزید لکھتے ہیں کہ تاریخ نے بعد میں ثابت کیا کہ اگلے ایک ہزار سال تک پارسیوں نے ہندوستانی تہذیب و تمدن پر خوش کن اثرات مرتب کیے۔

دی کراچی زورسٹرین کیلنڈر کے مصنف مرحوم جہانگیر فرمروز ای پنتھکی کے مطابق 1800 کی دہائی کے وسط میں، کم و بیش ہندوستانی بغاوت کے وقت، جب ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے درپے تھے تب پارسیوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی دکانیں کھولنی شروع کیں۔ 1830 سے لے کر اب تک کے پارسی ٹھیکیداروں، ڈاکٹروں، واچ میکرز، تاجروں، موم بتی بنانے والوں، گھڑسواروں، ٹیکس وصول کرنے والوں اور حتیٰ کہ نیلامیاں کرنے والوں کے ریکارڈ انگنت ہیں۔

اس وقت بھی بھارت میں بڑی بڑی کاروباری شخصیات کا تعلق پارسی کمیونٹی ہی سے ہے۔ ان میں جمشید جی ٹاٹا، رتن ٹاٹا اور قائداعظم کے نواسے نسل واڈیا زیادہ نمایاں ہیں۔
پارسی کون ہیں؟ ان کا عقیدہ کیا ہے؟
پارسی مذہب کا بانی زرتشت موجودہ شمالی ایران میں 628 قبل از مسیح میں پیدا ہوا اور 551 قبل از مسیح میں دنیا سے رخصت ہوا۔ پارسی ایک خدا اہورا مزدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کی مذہبی کتاب کا نام اوستا ہے جو ان کے پیغمبر زرتشت پر نازل ہوئی تھی۔

عام تصور کے برخلاف پارسی آگ کی پوجا نہیں کرتے بلکہ پارسی مذہب کے مطابق چاروں بنیادی عناصر؛ پانی، ہوا، سورج اور آگ پاک اور مقدس عناصر ہیں اور وہ ان کی تقدیس کو قائم رکھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ان کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں میں ہر وقت آگ روشن رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پارسی سورج کو اپنے خدا اہورا مزدا کا عکس مانتے ہیں۔ نوروز پارسیوں کا بڑا تہوار ہے جو سورج کی نعمتوں کو عقیدت پیش کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ تعلیم کا حصول اور پاکیزگی پارسیوں کی بنیادی مذہبی تعلیمات ہیں۔ پارسی دن میں پانچ مرتبہ عبادت گاہ میں اکٹھے ہو کر عبادت کرتے ہیں۔ عبادت کے اوقات کار مقرر ہیں۔ پارسی تین اصولوں پر یقین رکھتے ہیں؛ گفتار نیک، کردار نیک اور پندار نیک۔

یہودیت کی طرح پارسی مذہب میں بھی تبلیغ کرنے کا دستور نہیں ہے۔ پارسی اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں اور نہ ہی دوسرے مذاہب کے لوگوں کو پارسی مذہب اختیار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہودیوں ہی کے مانند پارسی کمیونٹی مخلوط شادیوں کی مخالف ہے اس لئے پارسی کمیونٹی دوسرے مذاہب کے ثقافتی اثرات سے خاصی حد تک محفوظ ہے۔

اہورامزدا کے صرف وہی عبادت گزار جو ایران سے برصغیر آئے تھے پارسی کہلاتے ہیں۔ باقی پوری دنیا میں بسنے والے زرتشت کے پیروکار زوروسٹرین یا زرتشتی کہلاتے ہیں۔
تقسیم کے وقت پارسی کیسے محفوظ رہے؟
1941 میں برصغیر میں پارسیوں کی تعداد ایک لاکھ 14 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ تقسیم ہندوستان نے جو ہولناکی مچائی، پارسی اس آگ سے پوری طرح تو نہیں مگر کافی حد تک محفوظ رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کے زمانے میں پارسی بڑے بڑے کاروباروں سے منسلک ہو کر ہندوستان کے خوشحال شہری بن چکے تھے۔ جب تقسیم ہونے لگی تو پارسیوں نے ہندوؤں یا مسلمانوں میں سے کسی گروہ کی حمایت نہ کی اور غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ کاروباری لوگ تھے اور ہندوستان میں رہیں یا پاکستان میں، انہیں اس سے کچھ زیادہ غرض نہیں تھی۔ اگرچہ وہ پوری طرح تقسیم کی ہولناکیوں سے محفوظ رہنے میں ناکام رہے کیونکہ اس دوران گندم کے ساتھ گھن پسنے والے محاورے کے مصداق سرحد کے دونوں پار ان کے گھروں اور کاروبار کی جگہوں کو بھی نذرآتش کیا گیا جس سے اس کمیونٹی کے لوگوں کا بھی اچھا خاصا نقصان ہوا۔
اس وقت کتنے پارسی پاکستان میں ہیں؟
1881 کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں 937 پارسی بستے تھے۔ 1970 تک یہ تعداد 5 ہزار ہو چکی تھی۔ مگر اب یہ تعداد کم ہو کر ڈیڑھ ہزار تک محدود ہو چکی ہے۔ پارسی برادری کی ویب سائٹ کراچی زرتشتی بنومنڈل کے مطابق اپریل 1995 میں پاکستان میں 2831 پارسی آباد تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 2012 میں یہ تعداد کم ہو کر 1675 رہ گئی تھی۔

نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی رکن اور سابق وفاقی وزیر روشن خورشید بروچہ کے مطابق اس وقت کراچی میں 1100 پارسی رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ لاہور میں پارسیوں کے 10 خاندان جبکہ کوئٹہ، راولپنڈی اور ملتان میں 9، 9 خاندان آباد ہیں۔
کراچی کے پارسی
کراچی میں ایم اے جناح روڈ سے متصل ایک کالونی ایسی ہے جو اب بھی پرانی فضاؤں میں بسیرا کیے ہوئے ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہی ماحول پر چھائی خاموشی اور طمانیت آپ کی توجہ کی مرکز بن جاتی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کی بھرمار اور اونچی اونچی عمارتوں کے شور سے یکایک آپ ایک ایسی وادی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں پرانی طرز کے بڑے بڑے مکان سکون اور شانتی میں سوئے پڑے ہیں۔ ان میں رہنے والے بیش تر مکین کب کے انہیں چھوڑ کر نئے گھونسلوں میں جا بسے ہیں اور پرانے گھر ابھی بھی ان کی راہ تک رہے ہیں۔

پارسی کالونی ایم اے جناح روڈ اور گارڈن کے علاقے کے بیچ دو گلیوں پر مشتمل ہے۔ اس کا پورا نام سہراب کیٹرک پارسی کالونی ہے۔ 1920 میں ایک پارسی شخصیت سہراب کیٹرک نے سولجر بازار کے قریب 96 ہزار مربع گز زمین خرید کر اس کالونی کی بنیاد رکھی تھی۔ کیٹرک کالونی سمیت کراچی میں 9 پارسی کالونیاں ہیں۔
راولپنڈی کے پارسی
کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی میں پارسیوں کی آمد اس وقت شروع ہوئی جب 1849 میں انگریزوں نے وہاں ہندوستان کی سب سے بڑی چھاؤنی قائم کی۔ پارسی لاہور اور بمبئی سے تجارت کے لئے راولپنڈی آئے تھے۔ 1893 میں راولپنڈی میں واحد فرسٹ کلاس اعزازی مجسٹریٹ ایک پارسی دھن جی بھائی تھے۔ دھن جی بھائی اپنے وقت کے بڑے ٹرانسپورٹر تھے اور فوجی سازوسامان کی نقل و حمل کے ٹھیکیدار تھے۔ انہوں نے راولپنڈی میں سب سے پہلی عوامی لائبریری بھی بنائی جہاں لکھنے پڑھنے والے لوگوں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت اگرچہ راولپنڈی میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی نسبت پارسیوں کی تعداد بہت کم تھی تاہم پارسی تجارت پیشہ کمیونٹی تھی۔ اس وقت تک صدر کے علاقے میں پارسی مختلف کاروباروں سے وابستہ تھے اور صدر بازار میں بیش تر دکانیں پارسیوں ہی کی ملکیت تھیں۔ تقسیم کے وقت راولپنڈی میں پارسیوں کے 70 سے 80 خاندان آباد تھے جن کی تعداد اب محض 9 خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
پارسی پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟

جب پاکستان بنا تو ہزاروں کی تعداد میں پارسیوں نے اسے اپنا گھر بنائے رکھا مگر بعد کے حالات کے پیش نظر پارسیوں نے پاکستان چھوڑنا شروع کر دیا۔ پاکستان بننے کے چند ہی سالوں بعد احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حق میں لاہور سمیت کئی شہروں میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔ مسلمانوں کا ماننا تھا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اور اقلیتوں کو اپنے دائرے میں محدود رہنا ہوگا۔ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی طرح پارسی بھی پاکستان میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اسی تناظر میں پارسیوں کی بڑی تعداد پاکستان کو خیرباد کہہ کر برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا جیسے ملکوں میں منتقل ہو گئی۔
اہم شخصیات
ذیل میں ایسی چند پارسی شخصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے ہونے نے پاکستان کی صورت گری میں کسی نہ کسی حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔
قائد اعظم کی اہلیہ، بیٹی اور گرو

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بیوی رتی جناح کا تعلق بھی پارسی کمیونٹی سے تھا اور ان کی بیٹی دینا جناح بھی پارسی مذہب کی پیروکار تھیں۔ وکالت اور سیاست میں قائداعظم کے قانونی استاد اور گرو دادابھائی نوروجی بھی پارسی تھے۔ دادا بھائی نورو جی انڈین نیشنل کانگریس کے شریک بانی تھے اور وہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے پہلے شخص تھے جو 1892 میں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
جمشید نسروانجی رستم جی مہتا

کراچی شہر کی تاریخ جمشید نسروانجی مہتا کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ انہیں کراچی کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی کے سب سے پہلے منتخب میئر ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی زبردست انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چھوٹے سے شہر کراچی میں سڑکیں، اسپتال، تعلیمی ادارے، فلاحی ادارے اور تفریحی پارک تعمیر کروائے۔ انہوں نے کراچی میں بڑے پیمانے پر درخت لگوائے اور جانوروں کے علاج کے لئے ایک اسپتال بھی تعمیر کروایا۔ مہتا جی کے دور میں کراچی کی سڑکیں دن میں دو بار دھوئی جاتی تھیں اور اسی وجہ سے کراچی کو مشرق کا سب سے صاف ستھرا شہر تصور کیا جاتا تھا۔
بہرام دِنشا آواری

پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا ایک معروف نام بزنس مین بہرام دنشا آواری ہے جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے والد دنشا آواری تقسیم سے پہلے انشورنس کمپنی میں کام کرتے تھے مگر بعد میں انہوں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1942 میں انہوں نے کراچی میں برسٹل ہوٹل خرید کر کاروبار کا آغاز کیا۔ 1948 میں انہوں نے کراچی کا بیچ لگژری ہوٹل خرید لیا۔ 1950 کی دہائی میں بیچ لگژری ہوٹل کراچی میں نائٹ لائف کا ایک اہم حصہ ہوا کرتا تھا۔ 1961 میں انہوں نے نیڈوز ہوٹل خرید کر خاندان کے اپنے 'آواری ہوٹل' کی بنیاد رکھی جس کا باقاعدہ افتتاح 1978 میں ہوا۔

اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہرام دنشا آواری نے ہوٹل مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر کے خاندانی کاروبار سنبھالنا شروع کر دیا۔ پڑھے لکھے اور دولت مند ہونے کے باعث بہرام دنشا آواری کا اٹھنا بیٹھنا کراچی کی اشرافیہ میں ہونے لگا اور یہاں سے ان کے تعلقات بنتے چلے گئے۔ 1988 میں جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو بہرام دنشا آواری نے باقاعدہ طور پر ہوٹل بزنس سنبھال لیا۔ 1988 میں وہ پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنی ذہانت اور لیاقت سے خاندانی کاروبار کو وسعت دی اور 1995 میں دبئی میں آواری ہوٹل کی شاخ کھولی۔ اس کے بعد 2008 میں مال آف ایمریٹس میں بھی آواری ہوٹل بنایا۔ اس وقت کینیڈا میں بھی آواری ہوٹل کام کر رہا ہے۔
پی ڈی بھنڈارا
1861 میں دو انگریزوں ایڈورڈ ڈائر اور ایڈورڈ ویمپر نے مری میں پیر پنجال کی پہاڑیوں کے نواح میں مری بروری کے نام سے ایک شراب بنانے والا کارخانہ لگایا۔ اس زمانے میں شراب اور بیئر برطانیہ سے منگوائی جاتی تھی اور وہاں سے آنے میں اسے دو سے تین ہفتے لگ جاتے تھے۔ 1947 میں جب انگریز برصغیر سے رخصت ہونے لگے تو پی ڈی بھنڈارا نامی ایک پارسی نے انگریزوں سے اس کمپنی کے شیئرز خرید لیے۔ پی ڈی بھنڈارا کے بیٹے ایم پی بھنڈارا آکسفورڈ یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ معروف آرکیٹیکٹ تھے اور تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے تین مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔

1947 میں پی ڈی بھنڈارا نے انگریزوں سے جس مری بروری کو خریدا تھا اس فیکٹری کو اب ان کے پوتے اسفندیار بھنڈارا چلا رہے ہیں۔ اسفند یار بھنڈارا بھی والد کی طرح رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ 2013 سے 2018 تک اقلیتوں کے لئے مخصوص نشست پر پاکستان مسلم لیگ ن نے انہیں اسمبلی کا رکن بنایا تھا۔
اردشیر کاؤس جی

اردشیر کاؤس جی بھی کراچی سے تعلق رکھتے تھے اور روزنامہ ڈان کے کالم نویس تھے۔ جوانی کے دنوں میں وہ اپنے خاندان کے شپنگ کے کاروبار سے منسلک رہے مگر بعد میں سماجی کارکن بن گئے۔ ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ بہت بے باک اور نڈر کالم نگار تھے۔ وہ 1988 سے 2011 تک ڈان اخبار کے ساتھ منسلک رہے۔
جسٹس دُراب پٹیل

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس دراب پٹیل کا تعلق بھی پارسی مذہب سے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سنائے جانے والے فیصلے میں انہوں نے اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے بھٹو کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
جمشید مارکر

جمشید مارکر 1922 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصے تک کرکٹ کمنٹیٹر رہے اور پھر سفارت کار بن گئے۔ وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک مختلف ملکوں میں پاکستان کے سفارت کار رہے۔ روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت جمشید مارکر امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور انہوں نے روسی انخلا کے لئے ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ سب سے زیادہ ملکوں میں سفارت کار رہنے کے باعث ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج ہے۔
بپسی سدھوا
بپسی سدھوا بھی پاکستان میں بسنے والے پارسیوں کے بھنڈارا گھرانے کی چشم و چراغ ہیں۔ وہ سابق رکن قومی اسمبلی ایم پی بھنڈارا کی بہن اور مری بروری کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو اسفندیار بھنڈارا کی پھوپھی ہیں۔ بپسی سدھوا 1938 کو کراچی میں پیدا ہوئیں مگر بعد میں خاندان کے ساتھ لاہور شفٹ ہو گئیں۔

بپسی فکشن رائٹر ہیں اور انہوں نے The Crow Eaters, Cracking India, The Bride سمیت کئی شان دار ناول تحریر کیے ہیں۔ ان کے ناولوں کو کئی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ 1998 میں ہدایت کارہ دیپا مہتا نے برصغیر کی تقسیم سے متعلق ان کے ناول Cracking India کو Earth: 1947 کے نام سے فلمی قالب میں ڈھالا تھا۔

حکومت پاکستان نے 1991 میں انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا ہے۔ وہ اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مقیم ہیں۔
پارسی کمیونٹی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے؟
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت محض 1 لاکھ 40 ہزار پارسی موجود ہیں جن میں سے 60 ہزار کے قریب صرف بھارت میں آباد ہیں۔ ان میں سے 18 سال سے کم عمر پارسیوں کی تعداد 18 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ 18 سے 60 سال کی عمر کے پارسی کل آبادی کا محض 31 فیصد ہیں۔ 50 فیصد سے بھی زیادہ پارسیوں کی عمریں 60 سال سے زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارسی کمیونٹی میں پیدائش کی شرح ان میں اموات کی شرح کی نسبت بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور کینیڈا میں پارسی مذہب کے پیروکاروں نے دوسرے مذاہب میں شادیاں بھی شروع کر دی ہیں اور یہ مخلوط شادیاں بھی پارسی مذہب کے ماننے والوں میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ انہی بنیادوں پر اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایک ایسی شاندار کمیونٹی جس نے فارس سے آ کر برصغیر کی صورت گری میں مرکزی کردار ادا کیا، اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہو چکی ہے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔