قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے دو سو سے زائد پیشیاں بھگتی تھیں۔ چھ ماہ میں تو چھتوں کے لینٹر بھی کھل جاتے ہیں جبکہ عمران خان کا پلستر ہی نہیں کھل رہا ۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ عمران خان کا کوئی میڈیکل ریکارڈ سامنے آیا کہ کہاں ہوا ہے؟ وہ تو اپنے ہی ہسپتال میں گئے تھے۔ میں نے تو تب بھی کہا تھا۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سےازخود نوٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیردفاع نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کو نو ججز نہیں بلکہ فل کورٹ کو سننا چاہیے اور شروعات پانامہ کیس سے کرنی چاہیے۔ پوری کورٹ فریقین کو سن کر فیصلہ کرے۔ پوری قوم عدالتی فیصلوں سے متاثر ہوتی ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی کہ ایک ادارہ دوسرے کے لوگوں کو تاحیات نااہل کرے۔ججز نے میرے قائد نواز شریف کو غلط ناموں سے پکارا ۔ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی اور چار سال بعد ان کی حکومت فارغ کی گئی۔اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور شاہ محمود قریشی نےتسلیم کیا کہ معاملے میں مداخلت ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو کیس سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے اثرات موجودہ حالات کے ساتھ مستقبل پر بھی منفی پڑ سکتے ہیں۔ پورا سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے۔مختلف فریق سے پوچھے اور ایسا حل دے جو آنے والے وقت میں آب حیات ہو۔اچھی بات یہ ہے کہ 9 رکنی بینچ بنایا گیا ہے۔ یہ فیصلہ 9 ججز نہیں بلکہ فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ پوری کورٹ فریقین کو سن کر فیصلہ کرے۔ پوری قوم عدالتی فیصلوں سے متاثر ہوتی ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی کہ ایک ادارہ دوسرے کے لوگوں کو تاحیات نااہل کرے۔ ججز نے میرے قائد نواز شریف کو غلط ناموں سے پکارا۔ جب ججز کرسی پر بیٹھ کر اپنی حدود پار کریں گے تو تنقید ہوتی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی اور چار سال بعد ان کی حکومت فارغ کی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور شاہ محمود قریشی نےتسلیم کیا کہ معاملے میں مداخلت ہوئی تھی۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلا آئینی حادثہ ایک جج کی وجہ سے ہوا جس نے نظریہ ضرورت جائز قرار دیا۔ ملک میں پہلی سیاسی شہادت بھی عدلیہ نے ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے کر سرانجام دی تھی۔ نواز شریف کی آئینی شہادت میں بھی عدلیہ ملوث رہی۔ ہمارے دامن پر داغ نہیں یہ ساری قوم جانتی ہے۔ مگر ان کے دامن پر داغ نہ ہونے کا کوئی نہ بتائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ججز پر تنقید نہیں کرنا چاہتا لیکن جب وہ پارلیمنٹیرینز کی حدود میں داخل ہوں گے تو پھر ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ آواز اٹھائیں کہ وہ کرسی کے تقاضے پورے نہیں کر رہے۔
وزیر دفاع نے کہا ہے کہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹیرینز ججز کا نام لے کر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ کچھ ججز پر تنقید کی جاتی ہے تو کچھ پر کیوں نہیں ہوتی؟جسٹس ثاقب اورجسٹس کھوسہ پرتنقید ہوتی ہےتوجسٹس ناصرالملک پرکیوں نہیں ہوتی؟ جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کو دوبارہ لکھنا کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے۔جس طرح آرٹیکل 63 کو ری رائٹ کیا گیا ہے یہ اس کے اثرات ہیں۔ عدلیہ کیلئے سیاسی رہنماوں نے عہدے قربان کیے حکومت چھوڑی ۔ماضی میں عدلیہ سے جتنی غلطیاں ہوئیں آج ان کے سدباب کیلئے اپنے وقار اپنی عظمت کیلئے خود شہادت دے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم باہر نکلیں ہمارے لئے تو باہر تانگہ کھڑا نہیں ہوتا۔ اشرافیہ کیلئے یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ہماری بطور ایم این اے ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار روپے تنخواہ ہے۔ہم کوئی اربوں کروڑوں روپے نہیں لیتے ہمارے ساتھ زیادتی کیوں؟ یہاں اشرافیہ کیلئے سڑکیں بند کرفیو لگ جاتے ہیں۔ ہمارے دامن پر جو داغ لگے ہیں وہ ہمارے ووٹر بھی جانتے ہیں۔ تاریخ میں کئی سیاستدان ایسے ملیں گے جنہوں نے تاریخ میں اپنا نام لکھوایا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی نے مجھے بتایا کہ ایک بیوروکریٹ کی بیٹی کی شادی میں 72 کروڑ کی سلامیاں اکٹھی کی گئی۔ اسی بیورو کریٹ کے ہاں گزشتہ شادی میں ایک ارب 20 کروڑ سے زائد سلامیاں اکٹھی کی گئیں۔ کسی نے پوچھا آج تک اس بیوروکریٹ سے؟ ہمیں تو اٹھا لیا جاتا ہے۔کل شاہ محمود کو پکڑا ہے آج اس کا بیٹا عدالت میں گیا ہوا ہے۔ہمارے پیچھے تو کوئی بھی نہیں آیا تھا۔
انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ پاکستان کی ہی نہیں کسی ملک کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک بندہ باہر گاڑی میں بیٹھا ہوا ہے اسے عدالت بلا رہی ہے۔ اسے عدالت کہہ رہی ہے کہ آجاؤ وہ نہیں آتا، لاڈ پیار سے کہتے ہیں، قانونی و آئینی طور پر کہتے ہیں وہ نہیں آتا جب کہ ہماری تو ایک مرتبہ میں ہی ضمانتیں منسوخ ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے شخص کو ملک پر مسلط کیا گیا جس نے ملک کا سارا نظام تہہ و بالا کر دیا۔ یہ شخص جن ہاتھوں سے کھاتا رہا انہی کو کاٹ رہا ہے۔ہم نے قانونی طور پر حق استعمال کرتے ہوئے عدم اعتماد کا ووٹ استعمال کیا لیکن ساتھ ہی حکومت توڑ دی گئی۔
پہلے امریکہ پر حکومت نکالنے کا الزام پھر اس سے پیچھے ہٹ گیا۔اب جنرل باجوہ اور نواز شریف پر الزام لگا رہا ہے۔ جنرل باجوہ نے تو نواز شریف کو گرفتار کروایا تھا۔ ایک شخص آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے پھر اس سے مکر جاتا ہے۔ اس شخص کی صورت میں قوم پر عذاب لے کر آئے۔ہم آتے ہیں سارے کے سارا کیا دھرا ہم پر پڑ جاتا ہے۔ اب ہم نے کوشش کی بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔ پنجاب میں جس طرح حکومت کا خاتمہ کیا گیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔