جمہوریت کے نقاب میں آمریت

پاکستانی عوام ہمیشہ سے اس کھیل کے خلاف رہی ہے، 2007ء میں مشرف کے خلاف وکلاء تحریک نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام آمریت کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں، 2014ء میں دھرنوں کے ذریعے عوام کو ایک نئی امید دلائی گئی، مگر جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ سب ایک نئے سیاسی تجربے کا حصہ تھا، آج جب عوام مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کے خلاف آواز اٹھاتی ہے، تو انہیں جمہوریت کے نام پر مزید دھوکا دیا جاتا ہے

12:48 PM, 24 Feb, 2025

حسن عمر

پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں اصول، نظریہ اور عوامی خدمت محض نعروں تک محدود رہے، جبکہ عملی سیاست ہمیشہ طاقت کے مراکز کے گرد گھومتی رہی۔ اقتدار کی ہوس میں کچھ خاندانوں اور شخصیات نے ہر آمریت کا ساتھ دیا، ہر غیر جمہوری اقدام کو سہارا دیا، اور جب بھی جمہوریت کی ہوا چلی، خود کو اس کا سب سے بڑا داعی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہر مارشل لا کے وقت اسٹیبلشمنٹ کے قریب جا کر اقتدار کی راہداریوں میں جگہ بناتے رہے، اور جب عوامی دباؤ بڑھا، تو جمہوریت کا چہرہ اوڑھ کر میدان میں آ گئے۔ ان کے لیے جمہوریت محض ایک ذریعہ ہے، ایک ہتھیار، جسے وہ اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے ملک پر مارشل لا مسلط کیا، تو بہت سے سیاستدان اور جاگیردار، جو چند سال پہلے جمہوریت کے ترانے گا رہے تھے، یکدم "ترقی پسند" بن گئے۔ انہوں نے آمریت کو "ملکی استحکام" کے لیے ضروری قرار دیا اور جمہوری اداروں کے خاتمے پر خاموش رہے۔ ایوب خان کے "بی ڈی سسٹم" کے تحت سیاست میں قدم رکھنے والے یہی چہرے آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں۔ اس وقت نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے چند حقیقی جمہوری سیاستدانوں کے علاوہ تقریباً تمام بڑے سیاستدان ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے۔ ممتاز دولتانہ، محمد علی بوگرا، اور پیر علی محمد راشدی جیسے لوگ ایوب خان کے فیصلوں کی حمایت کر رہے تھے۔ جب ایوب خان نے 1962ء کا آئین متعارف کروایا تو پیر پگاڑا، ملک فیروز خان نون اور دیگر بااثر شخصیات اسٹیبلشمنٹ کے قریب تھیں۔ یہ لوگ اس وقت اقتدار میں تھے کیونکہ ان کی پشت پر طاقتور حلقے تھے، مگر جیسے ہی ایوب خان کی گرفت کمزور ہوئی، یہ نئے مواقع کی تلاش میں نکل پڑے۔

1977ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا، تو وہی سیاستدان جو چند سال پہلے جمہوریت کا دم بھر رہے تھے، آمریت کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ پیر پگاڑا، نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین، اور دیگر سیاستدان ضیاء الحق کی چھتری تلے پروان چڑھے۔ نواز شریف، جو بعد میں خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا محافظ قرار دیتے رہے، اسی دور میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اور پھر وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچے۔ پیر پگاڑا نے ہمیشہ ضیاء کی حمایت کی اور غیر جماعتی انتخابات میں ان کی سرپرستی کی۔ مسلم لیگ (فنکشنل) اور دیگر اسٹیبلشمنٹ نواز گروہ اس دور میں ضیاء کی پالیسیوں کے تحت پروان چڑھے۔ جب ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، تو یہی سیاستدان خاموش رہے، بلکہ کچھ نے اس کی حمایت بھی کی۔

1999ء میں جب پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا، تو ایک بار پھر وہی پرانے سیاسی خاندان نئے چہروں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے قریب جا بیٹھے۔ مسلم لیگ (ق)، جسے اسٹیبلشمنٹ نے نواز لیگ کو توڑ کر بنایا، ان میں چوہدری شجاعت حسین، پرویز الٰہی، ظفر اللہ جمالی، اور شیخ رشید جیسے سیاستدان شامل تھے۔ سندھ میں ارباب غلام رحیم، پنجاب میں چوہدری برادران، اور بلوچستان میں جام یوسف جیسے سیاستدان مشرف کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے متحرک تھے۔

یہ کھیل آج بھی اسی انداز میں جاری ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو اقتدار دلانے کے لیے وہی پرانی قوتیں متحرک ہوئیں، جنہوں نے ماضی میں ضیاء، مشرف اور ایوب کے لیے زمین ہموار کی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے بعد ایک طرف جمہوریت کے نعرے بلند کیے گئے، تو دوسری طرف سیاسی انتقام کے نام پر مخالفین کے خلاف سخت کارروائیاں کی گئیں۔ نواز شریف، جو ماضی میں ضیاء کے قریب تھے، آج "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لگا رہے ہیں، جبکہ عمران خان، جو کل تک "نیوٹرلز" کی حمایت سے اقتدار میں آئے، آج انہیں غدار قرار دے رہے ہیں۔

ایوب خان کے "بی ڈی سسٹم" کے تحت سیاست میں قدم رکھنے والے جاگیردار آج بھی سیاست میں مضبوط جگہ رکھتے ہیں۔ ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کروا کر جو سیاسی انجینئرنگ کی تھی، اس کے اثرات آج بھی پاکستانی سیاست پر نمایاں ہیں۔ 1999ء میں مشرف کے مارشل لا کے بعد جو مسلم لیگ (ق) بنائی گئی، وہ درحقیقت انہی لوگوں کا مجموعہ تھی جو ہر آمر کے دربار میں وفاداری کا دم بھرتے رہے۔

پاکستانی عوام ہمیشہ سے اس کھیل کے خلاف رہی ہے۔ 2007ء میں مشرف کے خلاف وکلاء تحریک نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام آمریت کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔ 2014ء میں دھرنوں کے ذریعے عوام کو ایک نئی امید دلائی گئی، مگر جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ سب ایک نئے سیاسی تجربے کا حصہ تھا۔ آج جب عوام مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کے خلاف آواز اٹھاتی ہے، تو انہیں جمہوریت کے نام پر مزید دھوکا دیا جاتا ہے۔

یہی سیاستدان ہر دور میں عوام کو فریب دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہیں نہ تو جمہوریت سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی عوام کے حقوق سے۔ ان کے نزدیک جمہوریت ایک مہرہ ہے، جو ان کے اقتدار کی بساط پر ہمیشہ ان کے حق میں گرایا جاتا ہے۔ ان کے مفادات جہاں ہوتے ہیں، وہاں ان کی سیاسی وابستگی بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی، کیونکہ یہاں جمہوریت کو ہمیشہ ان ہی قوتوں نے یرغمال بنایا، جو کل آمریت کی گود میں بیٹھی تھیں۔

یہی پاکستان کی سیاست کا تلخ مگر حقیقی چہرہ ہے۔ یہاں جمہوریت صرف ایک نعرہ ہے، ایک سجاوٹ کا سامان، جو صرف اسی وقت نکالا جاتا ہے جب اقتدار خطرے میں ہو۔ جیسے ہی حالات بدلتے ہیں، یہ لوگ بھی اپنا چہرہ اور بیانیہ بدل لیتے ہیں۔ عوام کے حقوق، قانون کی بالادستی، جمہوری روایات یہ سب محض تقریروں اور بیانات کی زینت بنتے ہیں، عملی سیاست میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام اب بھی ان کے دھوکے میں آئیں گے؟ کیا وہ اب بھی ان سیاستدانوں کے وعدوں پر یقین کریں گے جو ہمیشہ طاقت کے مراکز کے ساتھ کھڑے رہے ہیں؟ یا پھر اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان کے اصل چہروں کو پہچان کر انہیں سیاست کے ایوانوں سے باہر نکال پھینکیں؟

مزیدخبریں