سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے ایک اہم بیان میں کامران خان نے لکھا کہ مشیر احتساب شہزاد اکبر کا استعفیٰ عمران خان کے لئے بڑا دھچکہ ہے۔ وہ اس استعفے سے منسلک ہے یا نہیں، تاہم عمران خان کا سب سے بڑا وعدہ کرپشن کا خاتمہ، کرپٹ مافیا کو سزائیں اور لوٹی دولت کی واپسی اپنی موت آپ مر چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت بننے سے پہلے ہی سینکڑوں ارب روپوں پر محیط جعلی بینک اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کیس میں شاندار تحقیقات کے نتیجے میں درجنوں ٹھوس کیسز بن چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت نے ایک بھی بڑے ملزم کو سزا نہیں دلوائی۔ چن چن کر بڑے بڑے ملزمان کو ریلیف فراہم کیا، لوٹی دولت کو سیسہ پلایا اور تحفظ فراہم کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے بعض اقدامات ناقابل معافی، اسٹیبشلمنٹ مزید آزمانے کی متحمل نہیں ہو سکتی: کامران خان
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل کامران خان نے وزیراعظم کے بعض اقدامات کو ناقابل فہم اور ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی فیصلہ سازی کی وجہ سے ناصرف ان کی حکومت بلکہ ملک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ انہوں نے اپنے دل کی یہ بھڑاس سلیم صافی کے یوٹیوب چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں نکالی۔
کامران خان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں۔ انھیں جو کہا جائے، وہ وہی کرتے ہیں، ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ لیکن پروگرام کے دوران اس کی بھی سختی سے تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے تبدیلی کو سپورٹ کیا تھا لیکن اب ساڑھے تین سال بعد بھی جب عمران خان ڈیلیور ہی نہیں کر پا رہے تو میں کیوں ان کی حمایت کروں، میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاناما کیس اور مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ ہماری نظروں کے سامنے ہوا۔ مورخ اس کے بارے میں نہ جانے کب تک لکھتا رہے گا۔ اس میں کوئی چھپے ہوئے معاملات نہیں تھے۔ یہ واضح طور پر تھا کہ ن لیگ کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا گیا۔ ان کو اور ان کی صاحبزادی مریم کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے حوالے سے کئی اور فیصلے ایسے آئے جس نے واضح طور پر ن لیگ کے سیاسی مستقبل کو تالے لگانے کی کوشش کی گئی۔
کامران خان نے کہا تھا کہ اس کے بعد نظام تبدیل ہو گیا اور پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آ گئی۔ عمران خان کو آتے ہی جن بے پناہ معاشی چینجلز کا سامنا کرنا پڑا، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں نے سوچا کہ ہم کب تک حکومتوں کو غلط کہتے رہیں گے، چلیں اب اسے آزما کر دیکھتے ہیں جو ملک میں تبدیلی کی بات کر رہا ہے۔
انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بعض ایسے ایشوز سامنے آئے جو ناقابل فہم اور ناقابل معافی تھے۔ مثال کے طور پر عمران خان کا عثمان بزدار کو ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر تعینات رکھنے پر بضد رہنا۔ پنجاب میں 6 آئی جیز کو تبدیل کر دینا۔ 6 چیف سیکرٹری تبدیل کر دینا۔ اسی انداز کو وفاق میں بھی اپلائی کرنا۔ ہر چند ماہ کے بعد اہم عہدوں پر تعینات افسروں کو، تین وزرائے خزانہ، 6 سیکرٹری خزانہ اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کے 6 سربراہوں کی تبدیلی اس بات کی نشانی ہے کہ عمران خان کی فیصلہ سازی مستحکم نہیں ہے۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب ہم کیسے کہہ دیں گے سب اچھا ہو رہا ہے۔ ملک کی جو صورتحال ہو چکی ہے، اس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ملک کو جو معاشی مسائل ہیں اس کیلئے مشترکہ سوچ پر عمل ہونا چاہیے تھا۔ شہباز شریف نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر چارٹر آف اکانومی کی تجویز پیش کی تھی لیکن عمران خان نے اسے انتہائی بری طریقے سے رد کر دیا۔ قومی سلامتی کے اہم معاملات میں بھی انہوں نے اپوزیشن کیساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ملک کو عدم استحکام کی طرف ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خطے میں عالمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا ہمارے طرف دیکھ رہی ہے، ہم کسی بھی غلطی، تجربات اور آزمائشں کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ عمران خان نے اپنے ہاتھ سے اپنی جماعت کی مقبولیت کو فنا کر دیا۔