خط میں شہباز شریف سے کہا گیا ہے کہ آپ نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس نہ دے کر بیان حلفی اور عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی کی۔ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے آپ سے رپورٹس دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ آئندہ 10 دن میں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس خصوصی بورڈ کو پیش نہ کی گئیں تو آپ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی جائے گی۔
اٹارنی جنرل کے خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت پنجاب نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کی جانچ کیلئے کمیٹی بنائی۔ خصوصی میڈیکل بورڈ نے 17 جنوری کو رپورٹ پیش دی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ نواز شریف کے ٹیسٹوں کی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ ان کے ڈاکٹروں نے میڈیکل بورڈ کو کوئی رپورٹس نہیں دیں۔ میڈیکل بورڈ نے کہا کہا تھا کہ رپورٹیں نہ ہونے پر نواز شریف کی صحت پر حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 16 نومبر 2019ء کو لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ ڈاکٹروں کی ہدایات کی روشنی میں انھیں یہ اجازت صرف چار ہفتوں کے لئے دی گئی تھی۔ نواز شریف جب باہر گئے تو ان کی حالت بڑی نازک بتائی گئی تھی۔ اب میڈیا رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نواز شریف کی طبیعت بہتر ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ نوازشریف جیسے ہی لندن پہنچے ان کی حالت بہتر ہوگئی، لندن جانے کے بعد نواز شریف ایک بھی دن ہسپتال میں داخل نہیں رہے۔ لندن میں نواز شریف کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری ہیں۔