23 نومبر کو جب تربت میں بالاچ نامی ایک نوجوان کی پولیس کے ذیلی ادارے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا واقعہ پیش آیا تو تربت سے ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس کے اثرات اب اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں۔
دارالحکومت میں گذشتہ ہفتوں سے دھرنا جاری ہے جس کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کر رہی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مطالبہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا سلسلہ روکنا ہے، تاہم اس مطالبے کے ساتھ ساتھ فیک انکاؤنٹر میں لاپتہ افراد کا قتل اور لاپتہ افراد کی با حفاظت بازیابی بھی دھرنے کے اہم ترین بنیادی نکات میں شامل ہیں۔
گو سرکاری سطح پر جبری گمشدگی کو محض ایک سیاسی الزام قرار دے کر ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے یا اس سے انکار کیا جاتا رہا ہے مگر بسا اوقات کئی نوجوان جبری گمشدگی کے مہینوں یا سالوں بعد گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں۔ یہ صرف ایک علاقہ یا ضلع میں نہیں ہوا بلکہ بلوچستان کے ہر اس ضلع، گاؤں یا دیہات میں ہوا ہے جہاں جبری گمشدگی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس سے معلوم پڑتا ہے کہ سرکاری دعوؤں کے برخلاف لاپتہ افراد کا مسئلہ حقیقی صورت میں موجود ہے جسے چاہ کر بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے بعد امکان تھا کہ جبری گمشدگی کے واقعات ختم ہو جائیں گے یا ان میں کمی لائی جائے گی تاہم اسلام آباد دھرنا کے باوجود بلوچستان کے مختلف علاقوں اور ضلع کیچ میں مختلف متاثرہ خاندانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے جبری گمشدگی کے الزامات متواتر لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک الزام تربت سنگانی سر سے جبری گمشدہ شہاب الدین کے خاندان کا ہے۔ اس خاندان کے بقول وہ 13 جنوری کو گھر سے حراست میں لیے جانے کے بعد لاپتہ کیے گئے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
نومبر 2023 سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین کی سربراہی میں ایک مؤثر اور منظم تحریک جاری ہے جن کے مطالبات میں سوشل اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ طلبہ کی جبری گمشدگی روکنے کا مطالبہ بھی سرفہرست ہے۔ اس موومنٹ کو بلوچستان سے باہر پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی پذیرائی ملنے لگی ہے اور اس جدوجہد کے ساتھ عام پاکستانیوں کی ہمدردیاں شامل ہونے لگی ہیں۔ اس کے باوجود جبری گمشدگی تاحال بلوچستان کا سب سے بڑے مسئلہ ہے۔
رواں سال جنوری میں بھی تربت سے نوجوانوں کی جبری گمشدگی کی بازگشت سنائی دی۔ اس سلسلے میں تربت سے شہاب الدین، شمس الدین اور عبدالباسط نامی نوجوانوں کے علاوہ دیگر افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف 'حق دو تحریک'، 'حق پرست' اور لاپتہ افراد کی فیملی کی طرف سے رواں ہفتے ایک مشترکہ ریلی تربت پریس کلب سے نکالی گئی جس میں بڑی تعداد میں لاپتہ افراد کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔
ان لاپتہ کیے گئے افراد کے اہل خانہ اور 'حق دو تحریک' کی طرف سے فدا شہید چوک تربت پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں لاپتہ شہاب الدین، شمس الدین، ظریف بلوچ اور عبدالباسط کی والدہ اور بہنوں نے خطاب کیا اور ضلعی انتظامیہ سے ان کی بازیابی کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔
فیملی نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ شمس الدین کو 7 جولائی 2021 کو گھر سے سکیورٹی اداروں نے جبری لاپتہ کیا تھا۔ وہ تب سے لاپتہ ہیں جبکہ اس کے بھائی شہاب الدین کو 13 جنوری 2024 کی رات سنگانی سر تربت میں گھر پر ہی چھاپہ مار کر جبری غائب کیا گیا۔
مظاہرین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور انہیں غیر قانونی طور پر سالہا سال زیر حراست رکھنے کے خلاف ایکشن لے کر لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کی اپیل کی۔
مظاہرین نے حکومت اور سکیورٹی اداروں سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ان کے لاپتہ کیے گئے افراد جن پر کوئی کیس ہے یا وہ کسی ایسے سنگین الزام میں ملوث ہیں جن کی قانونی حیثیت جرم شمار ہوتی ہے، انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور عدالتوں کو انصاف کا تقاضا پورا کرنے کی کھلی اجازت دی جائے۔ اگر لاپتہ کیے گئے افراد پر جرم ثابت ہو تو ملک کا آئین اور قانون جو سزا ان کے لیے تجویز کرتا ہے ہمیں وہ سزا قبول ہے، چاہے اس کی سزا پھانسی یا عمر قید ہی کیوں نہ ہو۔
بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جو ریاست کا ایک انتظامی صوبہ ہونے کے باوجود متحارب گروہوں اور ریاست کے بیانیہ کے بیچ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ دیگر کئی حوالوں سے متنازعہ ہے۔ مسلح تنظیموں کی متشدد کارروائیوں کے علاوہ جبری گمشدگی اور انسانی حقوق کہ پامالی کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری ایک پرامن تحریک بھی بلوچستان میں موجود ہے اور یہ تحریک جس کی قیادت اب نوجوان عورتوں کے ہاتھ میں ہے، اس کا بیانیہ شدت کے ساتھ روز بروز بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچوں کے علاوہ اس آواز سے اب غیر بلوچ یعنی سندھی، سرائیکی، پشتون اور اب پنجاپ کا عام طبقہ ایک حد تک متاثر ہو رہا ہے جو اس سیاسی موومنٹ کی کامیابی ہے۔ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس سب کے برعکس ریاست اور اس کے ادارے بلوچستان کے معاملے پر اپنی قائم کردہ کالونیل پالیسی سے منہ موڑنے کو تیار نہیں ہیں۔