اس دورے کی سب سے بڑی انفرادیت وہ تاریخی جلسہ اور عوامی طاقت کا مظاہرہ تھا جو عمران خان کی مقبولیت پر مستند مہر ثبت کرتا ہے۔ اس عوامی مظاہرے نے پاکستان کی داخلی سیاست میں "سلیکٹ" کا طعنہ دینے والوں کے غبارے سے عارضی طور پر ہوا نکال دی ہے۔ اس تاریخ ساز پاکستانی اجتماع نے جو اثر پیدا کیا وہ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں عمل اور باڈی لینگویج میں بھی نظر آ رہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے نواز شریف اور زرداری کے بارے میں کہے گئے الفاظ بھی کسی طے شدہ بیانیے کا حصہ نہیں تھے بلکہ وہ اس شعوری سوچ کا نتیجہ ہیں جو اس اجتماع کو دیکھ کر پیدا ہوئی۔
پچھلی حکومتوں میں سپہ سالار کے بیرونی دوروں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ یاترا میں عسکری حلقوں کی طرف سے پس پردہ رہنا اور میڈیا پر نا آنے کا فیصلہ بھی ایک خوش آئند عمل ہے، جسے داخلی صورتحال میں بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے سیاسی اور عسکری قیادت کی ساکھ اور شہرت میں اضافہ ہوگا۔
پچھلے چھ ماہ میں ہونے والے واقعات اور پیدا شدہ حالات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی نظر میں کھوئی افادیت کا کچھ حصہ واپس حاصل کر لیا ہے۔ امریکہ میں اگلے سال ہونے والے الیکشن اور عمران کی مقبولیت اور شخصیت نے بھی اس افادیت میں اپنا کردار ادا کیا ہے، امریکی صدر نے اپنا ہوم ورک کیا ہوا تھا۔ انہوں نے کشمیر کی خوبصورتی اور اس میں موجود بموں کا ذکر کرکے بھارت اور پاکستان دونوں کو حیران کر دیا۔ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت پاکستانی بیانیے کی حمایت تھی۔
درحقیقت صدر ٹرمپ کشمیر ایشو پر سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ماضی کے اختلافات سے بھرپور آگاہ تھے۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک صفحے پر رکھے بغیر افغانستان سے عزت کے ساتھ اور سال کے اندر واپسی ممکن نہیں لہذا کشمیر کو وہ اہمیت دینی تھی چاہے اس کے لئے بھارت کو عارضی طور پر ناراض ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
قطع نظر سفارتی روایات، امریکہ نے اپنے رسمی اور غیر رسمی ملاقاتوں میں بھارت اور افغانستان کے تحفظات اور نقطہ نظر بلا جھجک بتایا ہوگا۔ بھارتی بیانیہ کی دانستہ نظر اندازی کے پیچھے کافی ساری زمانتیں ہوں گی جو ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو پردے کے پیچھے واضح طور پر اور دنیا کے سامنے سفارتی زبان میں بتائی گئی ہوں گی۔ جب تک ہماری سیاسی اور عسکری قیادت اپنے اسلام آباد اور راولپنڈی کے دفاتر میں واپس آتی ہے تو ان کو واضح ہو گا کہ آگے کیا کرنا ہے اگر پہلے سے پتہ نہیں بھی تھا۔
چاہے کچھ گھنٹوں، ہفتوں، مہینوں یا سال کے لیے ہو صدر ٹرمپ نے امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے زمینی حقائق کے ساتھ چلنے کا نعرہ لگایا ہے۔ وقت ثابت کرے گا کہ امریکی صدر کس حد تک اپنے اقرار کو نبھاتے ہیں۔ پُر امید ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ چاہے جنگ ہو یا دہشت گردی کی واردات، بھارت اور پاکستان نے ہمیشہ اپنے کاغذات امریکہ کو جمع کرائے ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ نے بھی ان میں سے کچھ فائلوں کو پڑھا ہے تو پھر انہیں اندازہ ہوگا کہ حالات کتنے پیچیدہ اور نازک ہیں۔ کشمیر کا ذکر کرکے عوام اور عسکری قیادت کو خوش تو کیا جاسکتا ہے مگر بھارت کو فاٹا میں جمہوریت پر وار سے روکنا، بلوچستان میں دخل اندازی سے منع کرنا اور پاکستان کے اداروں اور سماجی روایات پر حملے کو روکنا ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے۔
پاکستان کو امریکہ یاترا سے حاصل کردہ زور حرکت میں تسلسل کو برقرار رکھنا پڑے گا۔ یہ ایک پیچیدہ مگر ٹیڑھا راستہ اور مشکل سفر ہو گا۔ پاکستان کو بین الاقوامی علاقائی اور داخلی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حاصل کردہ افادیت کو برقرار رکھ کر اسے ملکی مفاد میں استعمال کیا جاسکے۔ ان عملوں کے علاوہ جو پس پردہ کرنے کو کہے گے ہوں گے داخلی طور پر اگر ڈالر اسی طرح جھولتا رہا اور معیشت میں استحکام نہ آیا تو یہ زور حرکت متاثر ہوسکتا ہے۔ سیاسی ناپائیداری میں تسلسل کا برقرار رہنا، مہنگائی میں اضافہ، حکومتی اور انتظامی امور میں کوتاہی اور کرپشن کے خلاف مہم میں سست رفتاری بھی اس زور حرکت کو توڑ سکتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو غیر مقبول مگر ٹھوس عمل کرنے پڑیں گے جو بین الاقوامی طاقتوں سے مدد یا ثالثی حاصل کرنے کے لیے بنیاد کا کام کرسکیں۔ پہلا امتحان اکتوبر 2019 میں ایف اے ٹی ایف کے اسٹیٹس میں تبدیلی اور تجارت کے امریکی صدر کے نعرے کے بعد کے عوامل ہوں گے۔ داخلی طور پر عمران خان اور اسکی ٹیم کو کرپشن مہم کو اخلاقی، قانونی اور انتظامی تخفظ دینا ہوگا تاکہ اس کے اثرات غریب عوام محسوس کر سکیں۔
جنرل باجوہ نے وائٹ ہاؤس میں وردی پہن کر وزیراعظم کے ماتحت ایک چہرہ رکھنے کا تاثر دے دیا ہے۔ ایک عام پاکستانی پر امید ہے کہ جنرل باجوہ نے ایک ادارتی تصدیق دی ہے نہ کہ ذاتی ضمانت، رسمی طور پر وزیراعظم عمران خان کی امریکہ یاترا انتہائی کامیاب رہی لیکن کسی بڑی تبدیلی کی توقع کرنا غیر حقیقی ہوگا۔ اس کے لئے وقت اور عمل درکار ہوں گے۔ پاکستان کے لئے ایک موقع اور امید کی کرن ہے۔
سب سے اہم ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر ہے اور اس کے بعد عسکری قیادت پر کہ وہ پاکستان کے مفاد میں اس دورے کو عملی طور پر استمال کر کے عوام کو دکھائیں۔