اس الیکشن میں پاکستان تحریکِ انصاف کے جیتنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ سب سے مقبول جماعت ہے۔ بلکہ اسی وجہ سے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ آزاد کشمیر کی معیشت کا انحصار اسلام آباد پر ہوتا ہے۔ لوگ اپوزیشن پر اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتے جب کہ انہیں پتہ ہو کہ اسلام آباد میں کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں ہے اور دو سال تک ان کے علاقوں میں یہ اپوزیشن کوئی ترقیاتی فنڈ نہیں دے سکے گی۔ اس کے باوجود، عمران خان کے جلسوں میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آیا اور ان کے دیگر لیڈران کے جلسے بے رنگ تھے کیونکہ ان کے پاس دکھانے کے لئے کوئی سبز باغ ہیں نہ ہی اپنا کوئی کارنامہ۔ ان کا یہ یک نکاتی ایجنڈا کہ اپوزیشن کے تمام رہنما چور اور ڈاکو ہیں اب عوام کے لئے محض ایک خالی نعرہ بن کر رہ گیا ہے کیونکہ ریاست کے تمام ادارے، خواہ نیب ہو، ایف آئی اے یا پھر ایف بی آر، ایک بھی اپوزیشن رہنما کو کوئی سزا نہیں دلوا سکے حالانکہ بہت سے جج حکومت کو مطمئن کرنے کے لئے جس حد تک جا سکتے تھے، گئے ہیں۔
الٹا پی ٹی آئی حکومت کی خراب معاشی پالیسیوں نے عوام پر اتنا بوجھ ڈال دیا ہے کہ نواز شریف حکومت اس کے مقابلے میں ایک سنہرا دور لگنے لگا ہے۔ ایک حالیہ گیلپ سروے کے مطابق 80 فیصد کشمیری اپنی روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کے لئے پریشان ہیں، مثلاً پینے کے صاف پانی کی قلت، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، صحت کی ناکافی سہولیات، بے روزگاری، تعلیم کی کمی وغیرہ۔ سروے کے مطابق صرف 3 فیصد لوگ کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
اس پر متضاد یہ کہ حکومت کی بھارت اور کشمیر پالیسی سے عوام زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اگست 2019 میں جب نریندر مودی نے بھارتی آئین میں سے آرٹیکل 370 کو نکالا تو عمران خان مظفرآباد گئے اور آزاد کشمیر کے بپھرے ہوئے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر کو مشورہ دیا کہ جذبات میں آ کر لائن آف کنٹرول کو عبور نہ کریں کیونکہ اس سے بھارت کی جانب سے رد عمل آ سکتا تھا۔ اس کے بعد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ پوزیشن لے لی کہ آرٹیکل 370 بھارت کا اندرونی معاملہ ہے جب کہ اسلام آباد میں بھارت سے تجارتی تعلقات بحال کرنے پر سنجیدگی سے غور ہو رہا تھا۔ بعد ازاں یہ فیصلے واپس لینے کے اعلانات ہو گئے لیکن کشمیریوں کے یہ شکوک و شبہات دور نہیں ہو سکے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی بھارت اور کشمیر پالیسی میں سے کچھ برآمد ہونے والا نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی کشمیر میں ہمیشہ سے ووٹ بینک رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہتر ہوتے تعلقات شاید اس کو ان انتخابات میں مزید فائدہ دیں۔ ووٹرز کو علم ہے کہ وہ اسلام آباد میں فی الحال اور مستقبل قریب میں بھی حکومت بنانے کے قابل نہیں ہونے والی لیکن اگر اس کو ووٹ دیا جائے تو یہ آزاد جموں و کشمیر میں تحریکِ انصاف کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن سکتی ہے اور یوں ان کے مقامی مفادات کا تحفظ کر سکے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ایک الیکشن مہم کو درمیان میں چھوڑ کر امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں وہ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات پر ایک خاص حد سے زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
دو حالیہ واقعات نے اس انتخابی مہم کو لیکن گہنا دیا ہے۔ پہلا تو کشمیر اور گلگت بلتستان امور کے وزیر علی امین گنڈاپور کی جانب سے تمام انتخابی قواعد اور ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر انتخابی مہم میں حصہ لینا ہے۔ ان کا الیکشن کمیشن کے واضح احکامات کے باوجود انتخابی مہم میں موجود رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ الیکشن کمیشن کمزور ہے اور یہ اپنی رٹ رکھتے ہوئے ایک صاف شفاف الیکشن نہیں کروا سکے گا۔ دوسرا واقعہ آئی ایس آئی کے ایک سٹیشن کمانڈر کا تبادلہ ہے جس پر الزام تھا کہ یہ انتخابات میں دھاندلی میں ملوث تھا اور پاکستان تحریک انصاف کی ایک اے ٹی ایم کو آزاد جموں و کشمیر کا وزیر اعظم بنانے پر تلا تھا۔ عمران خان کی جانب سے ایماندارانہ اقرار کہ PTI امیدواروں میں کچھ دو نمبریے بھی شامل ہو سکتے ہیں نے ان کی جماعت کی مقبولیت میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔
اس الیکشن مہم کی سب سے حیران کن بات بہر حال مریم نواز کا دو ٹوک اور پراعتماد لہجہ ہے۔ وہ لوگ جو الزام لگا رہے تھے کہ نواز شریف اور مریم نے خاموشی سے شہباز شریف کا اسٹیبلشمنٹ نواز بیانیہ اپنا لیا ہے، انہیں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ مریم نے متعدد موضوعات چھیڑے ہیں: مثلاً ان کا یہ کہنا کہ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری پر تنقید پاک فوج کے ادارے پر تنقید نہیں ہے، دراصل وہ یہاں یہ بتانا چاہ رہی ہیں کہ اگر انہوں نے ٹھیک برتاؤ نہ رکھا تو یہ تنقید دوبارہ بھی شروع ہو سکتی ہے۔ پھر وہ کہتی ہیں کہ مسلم لیگ ن کے لیڈران جن پر غداری کے الزام لگائے جاتے ہیں، وہ دراصل حقیقی محب وطن پاکستانی ہیں جن کی عوامی خدمت کی ایک تاریخ ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ تحریکِ انصاف اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر نہیں رہے اس بات کا اشارہ تھا کہ ن لیگ کے لئے سیاسی راستے دوبارہ کھلنے میں شاید اب زیادہ دیر نہیں۔ جب وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل اسی صورت میں ممکن ہے جب ووٹ کو عزت دی جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات میں دھاندلی کی سازش میں شامل ہو کر پاکستانی عوام کو ایک حقیقی عوامی حکومت سے محروم کرنے کی کوشش نہ کرے۔
گیلپ کا سروے کہتا ہے کہ عمران خان آزاد جموں و کشمیر میں مقبول ترین لیڈر ہیں۔ لیکن آزاد جموں و کشمیر کے موجودہ صدر مسعود خان، جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے لگائے ہوئے ہیں، کشمیر میں کوئی مقبولیت نہیں رکھتے۔ سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیادہ تر کشمیری موجودہ راجا فاروق حیدر حکومت کی کارکردگی کو خاصہ اطمینان بخش سمجھتے ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر جلسوں کے سائز اور ان میں پائے جانے والے جوش و خروش کو معیار بنا کر دیکھا جائے تو مریم نواز سب سے مقبول نظر آتی ہیں۔ ایسے میں کس قسم کے نتیجے کی امید کی جا سکتی ہے؟
آزاد کشمیر میں ترازو اسٹیشبلمنٹ، اس کی چنیدہ پاکستان تحریک انصاف اور اسلام آباد میں بیٹھے اس کے وزیر اعظم کے حق میں جھکا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ان سے اتحاد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بدترین صورتحال میں بھی وہ یہاں ایک مخلوط حکومت بنانے میں تو کامیاب ہو ہی جائیں گے۔ لیکن ایک حقیقی حزبِ مخالف کا کردار ادا کرتی مسلم لیگ ن ان کے لئے معاملات کو مشکل بنائے رکھے گی۔ ن لیگ مناسب وقت کا انتظار کرے گی کہ جب اسلام آباد میں کوئی تبدیلی آئے اور پیپلز پارٹی مظفرآباد میں مخالفین کو چھوڑ کر ان کے ساتھ آ ملے۔
ترجمہ: علی وارثی