آج امریکہ بگرام ایئربیس کو رات کی تاریکی میں اور مکمل خاموشی کے ساتھ چھوڑ کر بھاگ چکا ہے۔ یہ وہ فضائی اڈہ تھا جو افغانستان میں امریکہ کا بنیادی جنگی مرکز تھا اور دسیوں ہزار امریکی فوجیوں کا گڑھ بھی تھا۔ لیکن امریکہ کو برسرپیکار جنگجوؤں کا خوف اس قدر زیادہ تھا کہ امریکہ نے اس معاملے میں افغان حکومت کو بھی اپنے اعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا کہ کہیں جنگجوؤں کو کانوں کان خبر نہ ہو جائے اور وہ بھاگتی ہوئی امریکی افواج کو نشانہ بنا لیں۔ اور نہ ہی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی فوج کی ویسی ہی تصویریں میڈیا کی زینت بنیں جو ویتنام سے بھاگتے ہوئے بنی تھیں!
یہ بات بہت عرصے سے واضح ہو چکی تھی کہ امریکہ افغانستان میں اپنے قبضے کے خلاف جاری مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، جسے افغان قبائلی آبادی کی حمایت حاصل تھی۔ امریکہ نے خود بھی یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اس کی کابل میں قائم کٹھ پتلی حکومت بھی ملک کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول اور اختیار لاگو کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا امریکہ نے طالبان کے ساتھ اِس امید پر سفارتی حل کا رستہ اختیار کیا کہ جو مقصد وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کر سکا تھا وہ اس طرح سے حاصل کر لے گا۔ لیکن امریکہ مذاکرات کے ذریعے بھی مکمل سفارتی کامیابی اور اپنی مرضی کا سیٹ اپ حاصل نہیں کر سکا کیونکہ مذاکرات کرنے والے افغان مجاہدین کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس کے ایک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ بات امریکہ کو گوارا نہیں کہ وہ افغانستان سے ایسے انخلا کرے کہ خطے میں اس کا عمل دخل ہی ختم ہو جائے۔ امریکہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ طالبان کابل حکومت کے اہم مراکز پر قبضہ نہ کر سکیں۔ امریکہ کو اس بات میں کوئی تامل نہیں اگر وہ افغانستان میں بھی عراق والی صورتحال کو دہراتا ہے، جہاں امریکہ نے عراق سے ایسی صورتحال میں انخلا کیا تھا کہ ملک افراتفری کا شکار تھا، اور کسی بھی گروہ کو ملک پر مکمل کنٹرول حاصل نہ تھا، مخلص لوگ اقتدار سے باہر تھے اور بغداد کی کٹھ پتلی حکومت امریکی مفادات کا تحفظ کر رہی تھی۔ عراق کی حکومت نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ اس کا اقتدار پورے ملک پر قائم ہو جائے، لیکن وہ اس قابل تھی کہ تیل کے کنوؤں کی حفاظت کر سکے جنہیں امریکی کمپنیاں لوٹ رہی تھیں۔ حکومت اس قابل بھی تھی کہ وہ عراق میں امریکہ مخالف لوگوں، چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا بعث پارٹی سے، مکمل اقتدار حاصل کرنے سے روک سکے۔ لہٰذا اگر افغانستان کی صورتحال بھی عراق کی سی شکل اختیار کر لیتی ہے اور خونریزی جاری رہتی ہے تو ایسا امریکہ کے لئے قابل قبول ہو گا۔ اور امریکہ اس صورت حال کو چین اور روس کی راہ روکنے کے لئے بھی استعمال کر سکے گا جو افغانستان کے لئے اپنے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں۔
لہٰذا امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ طالبان افغانستان کے حساس علاقوں جیسا کہ کابل کا گرین زون، ائر پورٹ، سپلائی روٹس اور دیگر اہم تنصیبات پر قبضہ نہ کر سکیں اور ایسا وہ پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کے تعاون اور ان کے اثر و رسوخ کو استعمال میں لا کر ممکن بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ امریکہ پاکستان پر FATF کے ذریعے دباؤ کو برقرار رکھے ہوئے ہے جس نے پاکستان کو مزید ایک اور سال کے لئے 'گرے لسٹ' سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی حکومت اس وقت اعلانیہ طور پر تو امریکی دباؤ کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہی ہے اور امریکی اڈوں کی اجازت دینے سے بھی انکار کر رہی ہے مگر دوسری طرف پاکستان نے امریکہ کے ساتھ 2001 میں طے پائے جانے والے "ایئر لائن آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی)" کی تجدید کر دی ہے بلکہ ان کے بارے میں برملا اعلان کیا جا رہا ہے کہ وہ معاہدے اب بھی اپنی جگہ برقرار ہیں! حقیقت تو یہ ہے کہ اشد ضرورت کے وقت پاکستان کے فرمانبردار حکمرانوں نے امریکہ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان ہی وہ بڑا سہولت کار تھا جس کی مدد سے امریکہ افغانستان پر اپنے قبضے کو ممکن بنا پایا تھا۔ اور یہ پاکستان ہی تھا جس نے مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھانے میں امریکہ کی بھرپور مدد کی۔ اور اس وقت بھی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے موقع پر اور اس کے نتیجہ میں افغانستان میں پیدا ہونے والی اندرونی صورتحال سے متعلق پاکستان کی جانب سے امریکہ کے لئے سہولت کاری زور و شور سے کے ساتھ جاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا ازبکستان کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جبکہ اس سے کچھ ہی دن قبل ازبکستان کے وزیر خارجہ امریکہ کا دورہ کر واپس لوٹے ہیں۔
ہم نے ستر سال امریکی علاقائی منصوبوں کا ایندھن بن کر دیکھ لیا، اور ان منصوبوں میں اپنی ریاستی طاقت کا مشاہدہ بھی کر لیا کہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر ہی امریکہ سوویت یونین کو شکست دینے میں کامیاب ہوا، پاکستان کے ذریعے ہی امریکہ نے دہائیوں تک بھارت کے ناک میں دم کیے رکھا اور پھر اسے اپنے کیمپ میں کھینچنے پر قادر ہوا۔ امریکہ وسطی ایشیا تک ہماری طاقت کو استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس سب سے ہمیں کیا حاصل ہوا، سوائے اس کے کہ ہمارا ملک دولخت ہوا، سیاچن اور تین دریا بھارت نے چھین لیے، اکسائی چن چین نے لے لیا، ہمارے قبائلی علاقے اور پھر پورا ملک انتشار کا شکار ہوا اور آج مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کے جبری قبضے پر ہم چپ سادھے بیٹھے ہیں، اور اسے سرکاری طور پر سرنڈر کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تو جب امریکہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر پورے خطے میں اپنا کھیل کھیل کر اپنے استعماری مفادات حاصل کر سکتا ہے، تو ہم اس طاقت کی بنیاد پر اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اسے خطے کے مسلمانوں کے مفاد کے لئے کیوں استعمال نہیں کر سکتے؟ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ تصور کرنا محال ہے کہ امریکہ اب دوبارا اپنی فوجیں لے کے اس خطے پر حملہ آور ہو گا۔ تو کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان جرات مندانہ قدم اٹھا کر خطے سے امریکی اثرورسوخ کا جڑ سے خاتمہ کردے؟