63 اے سے متعلق کیسز، حکومتی اتحاد کا فل کورٹ کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ

02:16 PM, 24 Jul, 2022

نیا دور
حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مشترکہ فیصلہ کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

مزید بتایا گیا کہ حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین کل صبح ساڑھے 10 بجے مشترکہ پریس کانفرنس میں اہم اعلان کریں گے۔

بیان کے مطابق حکومتی اتحادی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین پریس کانفرنس کے بعد اپنے وکلا کے ہمراہ مشترکہ طور پر سپریم کورٹ جائیں گے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب، سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست اور متعلقہ درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرنے کی بھی استدعا کی جائے گی۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سپریم کورٹ جائیں گی جبکہ ایم کیو ایم، اے این پی، بی این پی، باپ سمیت دیگر اتحادی جماعتیں بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔

تمام جماعتوں کے وکلا سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے پر دلائل دیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ‎حکمراں اتحاد نے مشترکہ و متفقہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی فل کورٹ سماعت کی جائے۔

‎اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ بار کی نظرِ ثانی درخواست اور دیگر متعلقہ درخواستوں کو عدالت عظمیٰ کے تمام معزز جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ ایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرکے اس پر فیصلہ جاری کرے۔

اعلامیے میں اس مطالبے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ بہت اہم قومی، سیاسی اور آئینی معاملات ہیں، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی بھاری قیمت ملکی معیشت دیوالیہ پن کے خطرات اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

حکمران اتحاد نے اعلامیے میں کہا تھا کہ عمران خان بار بار سیاست میں انتشار پیدا کر رہے ہیں جن کا مقصد احتساب سے بچنا، اپنی کرپشن چھپانا اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین نے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی واضح لکیر کھینچی ہوئی ہے جسے ایک متکبر آئین شکن فسطائیت کا پیکر مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزیدخبریں