سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے اعترافات ان تہلکہ خیز انکشافات کے سلسلے میں تازہ ترین اضافہ ہیں جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کس طرح عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ان کو حکومت سے بے دخل کرنے کے حوالے سے امریکی سازش کا بیانیہ تیار کیا تھا۔ پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے ایک جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرانے اور انہیں اقتدار سے نکالنے کی امریکی سازش کے 'ثبوت' کے طور پر سائفر کی موجودگی کا اعلان کرنے کے قریب 16 ماہ بعد اب آخرکار اس معاملے پر سے دھند چھٹ رہی ہے اور کچھ سچائیاں سامنے آ رہی ہیں جو ان تمام لوگوں کے کردار پر ایک بدنما روشنی ڈال رہی ہیں جنہوں نے اس نام نہاد سازش کے بیانیے کو تخلیق کیا تھا اور پھر اس کی تشہیر کی تھی۔
اس سارے منظرنامے سے متعلق درج ذیل 10 نکات قابل غور ہیں:
1۔ اس افسوس ناک کہانی میں تین مرکزی کردار ہیں؛ عمران خان، اعظم خان اور شاہ محمود قریشی۔ ان کے بعد معاون کرداروں کی ایک ٹیم ہے جس میں فواد چودھری، شیریں مزاری اور پی ٹی آئی کے دیگر ترجمانوں کا ایک گروہ شامل ہے، جن میں سے زیادہ تر نے ایک مخصوص ٹی وی چینل پر بیٹھ کر وہ تمام زہریلے جھوٹ بولے جن سے سائفر بیانیہ تیار ہوا۔ اور پھر وہ اضافی کردار ہیں جو اس سارے معاملے میں گندے ہوئے کیونکہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے۔ اس رنگ برنگی ٹیم نے اکٹھے ہو کر بے بس ووٹرز پر ایسا جادو کیا جو اس قدر نقصان دہ اور خطرناک تھا کہ ملک ابھی تک اس کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
2۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے اس جھوٹ کو تیار کیا، اس کے شواہد درج ذیل ہیں:
(الف) قومی سلامتی کمیٹی کے تین اجلاس (دو پی ٹی آئی دور اقتدار میں، تیسرا پی ڈی ایم حکومت کے دور میں)
(ب) مرکزی کرداروں کی لیک آڈیو کالز جن میں وہ سائفر کو امریکی سازش کے طور پر پیش کرنے اور اس پر کھیلنے سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں
(ج) اعظم خان کا اعترافی بیان جو نکات (الف) اور (ب) میں پیش کیے گئے شواہد کی تصدیق کرتا ہے
3۔ قومی سلامتی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں عمران خان سائفر سے متعلق یہ دھن بجاتے رہے کہ امریکہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت سے ان کی بے دخلی کی جس طرح منصوبہ بندی کر رہا ہے، سائفر اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔ فوجی ہائی کمان پہلے ہی سائفر پر اپنا ہوم ورک مکمل کر چکی تھی، تاہم صاف بات کی جائے تو پی ٹی آئی کے اس احمقانہ بیانیے کو جھٹلانے کے لئے زیادہ ہوم ورک کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر عمران خان کے عہدے کے احترام میں اعلیٰ فوجی قیادت نے اتنا مان لیا کہ امریکی سفارت کار کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان غیر مناسب تھی جیسا کہ امریکہ میں اُس وقت کے پاکستانی سفیر (اور موجودہ سیکرٹری خارجہ) اسد مجید نے رپورٹ کیا تھا۔ فوجی ہائی کمان کچھ لوگوں کے مطابق باامر مجبوری اس بات پر بھی راضی ہو گئی کہ سائفر پاکستان کے اندرونی معاملات میں 'مداخلت' کے مترادف ہے۔ اجلاس کے بعد اس کی باقاعدہ پریس ریلیز بھی جاری کی گئی۔
4۔ لیکن پھر ایک دلچسپ بات رونما ہوئی جو بڑی حد تک غیر رپورٹ شدہ ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا پہلا اجلاس جس میں سائفر تنازعے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا، اس اجلاس میں اصل میں کیا ہوا تھا اجلاس کے منٹس میں اس کارروائی کو ٹھیک طرح سے نہیں بیان کیا گیا۔ درحقیقت اس ہیرپھیر کے منظرعام پر آنے سے پہلے ہی صاحبانِ علم نے محسوس کر لیا تھا کہ اجلاس کے منٹس جاری کرنے میں غیر ضروری تاخیر کی جا رہی تھی۔ پھر ایک پیغام بھیجا گیا۔ اس کے بعد آخرکار منٹس تمام متعلقہ افراد کو بھیج دیے گئے۔ اس کے بعد نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں موجود کچھ انتہائی متعلقہ شرکا نے نشاندہی کی کہ منٹس اجلاس کی کارروائی کی درست ترجمانی نہیں کر رہے۔ میٹنگ منٹس میں ایسی تصویر پیش کی گئی تھی جس سے تاثر ملتا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شامل تمام شرکا نے اس بیانیے سے مکمل اتفاق کیا ہے کہ سائفر درحقیقت رجیم چینج کی سازش کا شاخسانہ تھا۔
5۔ تب کچھ لوگوں نے منٹسں کی تیاری سے متعلق ذمہ دار لوگوں کو بتایا کہ ان میں کی گئی غلطیاں دور کرنا ہوں گی۔ اس طرح کے منٹس تیار کرنے کا ذمہ دار کون ہے، یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ جاننے کے لئے بھی زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں کہ اس انتہائی اہم اجلاس کے منٹس میں ہیرپھیر کر کے کس کو فائدہ حاصل ہوا ہو گا۔ اگر شک ہو تو براہ کرم اوپر درج نکتے (2-ب) کو پڑھ لیں۔ متعلقہ افراد کو جب براہ راست یہ پیغام دیا گیا تو اس کے نتیجے میں منٹس کو دوبارہ سے تیار کیا گیا جو پہلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی درست ترجمانی کرتے تھے۔
6۔ اسی دوران وزارت خارجہ میں ایک اور تنازعہ پیدا ہو رہا تھا۔ جب عمران خان نے اسلام آباد کے ایک جلسے میں سائفر لہرایا تو وزارت خارجہ کے کئی اہلکار حیران رہ گئے۔ سائفر پوری دنیا میں سفارت کاری کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ رازداری ان کے پروٹوکول میں شامل ہے۔ اس کے پیچھے پوری منطق ہے۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ ان کے سفیر اپنے دارالحکومتوں سے درست رپورٹیں اور تجزیے لکھنے کے لئے خود کو مکمل طور پر محفوظ سمجھیں تا کہ فیصلہ سازوں کے پاس زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد اور درست معلومات پہنچائی جا سکیں۔ اگر سفیروں کو یہ محسوس ہونے لگے کہ انہیں اپنی رپورٹس کو خود سے سنسر کرنا ہے، یا ناخوشگوار حقائق پر روشنی نہیں ڈالنی، یا یہاں تک کہ اگر وہ یہ سمجھنے لگیں کہ انہیں اپنی رپورٹوں کو اس طرح تیار کرنا ہے کہ ان کے اعلیٰ افسران کو یہ پسند آئیں تو اس سے سفارت کاری کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ سفارت کاروں کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ ان کے سائفرز کو کبھی بھی عام نہیں کیا جائے گا اور ان کا یہی یقین اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سفارت کار جتنی ایمانداری اور پیشہ ورانہ طریقے سے رپورٹ کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ سائفر عام کرنے والی ریڈ لائن کبھی پار نہیں کی گئی۔
7۔ تاوقتیکہ عمران خان نے اسے پار نہیں کر لیا۔ انہوں نے سائفر کو عام نہیں کیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر برا کام یہ کیا کہ اسے خود غرض سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پھر انہوں نے اصل سائفر اپنے پاس ہی رکھ لیا اور اسے گم بھی کر دیا۔ یا کم از کم وہ یہی دعویٰ کرتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں، جس وقت انہیں سائفر کے وجود کے بارے میں علم ہوا تب سے لے کر تب تک جب تک کہ وہ اس سے جتنا بھی فائدہ لے سکتے تھے لیتے رہے، انہیں ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی مسلسل مشاورت حاصل رہی۔ اس ضمن میں شاہ محمود قریشی کا کردار خاص طور پر ان کی وزارت کی جانب سے بھی تنقید کی زد میں آیا جس کے وہ سربراہ تھے۔ دوسری بار وزیر خارجہ بننے والے اور ایک تجربہ کار سیاست دان کے طور پر جو ریاستی معاملات سے بخوبی واقف ہیں، شاہ محمود قریشی کو اس طرح کی لاپروائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ انہیں اس سازش کے نقصان اور بین الاقوامی سطح پر اس کے پاکستان کی سفارت کاری، خارجہ تعلقات اور ساکھ پر پڑنے والے برے اثرات کا علم نہ ہو۔ اس کے باوجود وہ آگے بڑھتے گئے اور سائفر سے متعلق اس سفید جھوٹ کو پھیلانے میں پیش پیش رہے جب ان کی حکومت اپنی قبر کو گہرے سے گہرا کھودنے میں مصروف تھی۔
8۔ اس سے بھی زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے اپنی لاپروائی اور مفاد پرستانہ سیاست سے وزارت خارجہ کے معصوم اہلکاروں کو بھی اس تنازعے میں گھسیٹ لیا۔ ایسے ہی ایک اہلکار کی آنے والے مہینوں میں سرزنش بھی ہوئی جب سائفر پر ہونے والی ایک گفتگو کے دوران جسے ریکارڈ کیا گیا، اس اہلکار کا کردار سامنے آیا۔ مذکورہ اہلکار جو مکمل طور پر پیشہ ور افسر ہے اسے اپنے سربراہ کے اعمال کی قیمت چکانا پڑی۔ یہ اس اہلکار کے ساتھ ناانصافی تھی۔
9۔ سازش میں شامل مرکزی کرداروں کے بعد اس معاملے میں بدترین مجرموں میں وزیر اطلاعات فواد چودھری اور انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری شامل تھیں۔ دونوں اس دھوکہ دہی کے حق میں ڈھول پیٹنے میں پیش پیش تھے حالانکہ یہ دونوں اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ پوری داستان ایک سفید جھوٹ پر مبنی تھی۔ یہ نری بکواس تھی۔ شیریں مزاری اور ان کی پارٹی کے ترجمان اور ایک مخصوص نیوز چینل پر مسخروں جیسے پروپیگنڈا کرنے والوں نے یہ عجیب و غریب دعوے کر کے بہت سارے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا کہ وہ تمام لوگ جو اپنے سرکاری فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں امریکی سفارت کاروں سے ملاقاتیں کر رہے تھے، درحقیت امریکی سازش میں حصے دار تھے۔
10۔ اب سائفر کا معاملہ قانونی کارروائی میں ہتھیار بننے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ وہ تمام لوگ جو سائفر پر جھوٹا بیانیہ تیار کرنے اور اسے عام کرنے میں ملوث ہیں ان کا احتساب ضروری ہے کیونکہ انہوں نے پاکستانی عوام کو دھوکہ دیا اور ریاست کے مفادات کو خطرے میں ڈالا۔ سائفر کی افسوس ناک کہانی کا نشانہ بننے والوں میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔