یہ ہے عجب ٹھرک کی غضب کہانی۔ مشہور رائٹر خلیل الرحمان قمر کو مبینہ طور پر ٹھرک نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ موصوف صبح 4 بج کر 40 منٹ پر ایک حسینہ آمنہ عُروج سے ڈرامہ سازی کرنے اس کی جگہ پر بحریہ ٹاؤن چلے گئے۔ اور پھر ان کے ساتھ سخت زیادتی کی گئی۔ جی ہاں سخت زیادتی۔ اور یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ خود خلیل الرحمان قمر کے الفاظ ہیں جو ایف آئی آر میں درج ہیں۔
خلیل الرحمان قمر کو لوٹا گیا، ان پر تشدد کیا گیا اور خلیل جی اس بات پہ بضد ہیں کہ انہیں اِغوا بھی کیا گیا حالانکہ لڑکی کی بتائی گئی لوکیشن پہ جنابِ خلیل خود اپنی مرضی سے گئے تھے۔ مبینہ طور پر سوائے ٹھرک کے انہیں کسی نے بھی مجبور نہیں کیا تھا آمنہ عروج کے ہاں جانے پر۔ خیر، خلیل الرحمان قمر نے اپنی صفائی میں کچھ باتیں کی ہیں۔ جس ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم پر شو کرتے ہیں وہاں بھی مبینہ طور پر اپنے حق میں وی لاگز کرائے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ خلیل الرحمان قمر کی اپنی ہی باتیں انہیں مزید پھنسا رہی ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ وہ جتنی صفائیاں دیتے جا رہے ہیں، اتنا ہی پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اور کیوں نہ پھنسیں؟ آخر انہوں نے خود جان بوجھ کر اس دلدل میں چھلانگ جو لگائی تھی۔ اس لیے بھگت رہے ہیں اس کے نتائج۔
اب سوال یہ ہیں کہ خلیل الرحمان قمر کیوں ملنے گئے آمنہ عروج سے اس کی لوکیشن پر؟ آمنہ عروج کون ہیں؟ آمنہ عروج سے خلیل الرحمان قمر کا تعلق کتنا پرانا ہے؟ کیا خلیل الرحمان قمر آمنہ عروج کے ساتھ پہلے بھی ڈراما سازی کر چکے ہیں؟ اس کیس میں خلیل الرحمان قمر نے کیا کیا غلطیاں کیں؟ خلیل الرحمان قمر نے پریس کانفرنس میں کالا چشمہ کیوں لگا رکھا تھا؟ عورتوں کے خلاف بولنے والے خلیل الرحمان قمر کب کب عورت ذات کی وجہ سے تنازعات میں پھنسے؟ کیا عورتوں کے ہاتھوں اغوا ہونے کی خلیل الرحمان قمر کی خواہش اب بھی پوری نہ ہو سکی؟
معاملہ سیدھا بھی ہے اور سادہ بھی۔ خلیل الرحمان قمر اس وقت پاکستان کے سب سے مشہور رائٹر ہیں۔ وہ سلیبرٹی ہیں۔ کوئی عام رائٹر بھی کسی انجان خاتون کی ایک فون کال پر اس سے ملنے اس کی جگہ پر نہیں چلا جاتا، لیکن خلیل میاں منہ اٹھا کے چل دیے۔ حالانکہ موصوف پرانے کھلاڑی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نہ سمجھ پائے کہ ڈراما سازی ہو یا تنظیم سازی، ہمیشہ اپنی جگہ پر کرنی چاہیے، کسی اور کی جگہ پر نہیں۔
جناب نے ایف آئی آر میں لکھوایا کہ انہیں رات 12 بجے Unknown Number سے کال آئی۔ کال Receive کی تو خاتون نے کہا کہ اس کا نام آمنہ عروج ہے۔ وہ بڑی فین ہے خلیل الرحمان قمر کی اور ملاقات کرنا چاہتی ہے۔ اس پر جناب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور چل دیے اس سے ملاقات کو۔ جبکہ پریس کانفرنس میں خود مانا کہ 15 دن سے رابطے میں تھے آمنہ عروج سے۔ مبینہ طور پر اس ڈجیٹل پلیٹ فارم پر بھی خود یہ بات کہلوائی کہ آمنہ نے خود کو کینسر Patient ظاہر کیا اس لیے اس سے ملنے گئے۔ یعنی تضاد ہی تضاد ہیں خلیل الرحمان قمر کے بیان میں اور وہ بھی کھلے تضاد۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
کوئی جناب سے پوچھے کہ ایف آئی آر میں آمنہ عروج سے 15 دن سے رابطے کا ذکر کیوں نہ کیا خلیل جی نے؟ لڑکی وڈیوز اور تصویریں بھیجتی رہی۔ ان تصویروں سے وہ کینسر کی مریضہ نہیں لگ رہی۔ پھر کیوں مان لیا کہ وہ کینسر Patient ہے؟ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ دونوں جانب سے نازیبا تصاویر اور وڈیوز کا تبادلہ ہوا۔ اور یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ اسی لڑکی سے پہلے بھی اسی کی لوکیشن پر ڈراما سازی کرنے جا چکے ہیں خلیل جی۔ مگر تب ڈراما سازی میں کچھ زیادہ پیش رفت نہیں ہونے دی تھی اس چالاک حسینہ نے۔ اس نے بس اعتماد حاصل کرنا تھا، سو کر لیا۔ یوں کہیں کہ تشنگی یعنی پیاس باقی رہ گئی تھی۔ اور مبینہ طور پر یہی پیاس بجھانے دوبارہ تشریف لے گئے خلیل جی اس لڑکی کے پاس۔ اور اس بار اس نے کام دکھا دیا۔
خلیل الرحمان قمر کے ساتھ ہوئی واردات کو اغوا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جناب خود گئے تھے ڈراما سازی کے لیے۔ یوں ان کی لڑکیوں کے ہاتھوں اِغوا ہونے کی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہو سکی۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ سیانا کوا ہمیشہ گند پہ ہی گرتا ہے۔ او بھائی! اگر تمہارے ساتھ یہ واقعہ ہو ہی گیا تھا تو کیا ضرورت تھی ایف آئی آر درج کروا کے دنیا بھر کے سامنے ذلیل ہونے کی؟ چھپا لیتے واقعے کو۔ لیکن اس سوال کا جواب بھی لوگ دے رہے ہیں۔ Netizens الزام لگا رہے ہیں کہ چونکہ لڑکی کے پاس خلیل جی کی کچھ ایسی ویسی تصویریں اور وڈیوز تھیں اس لیے وائرل ہونے کے ڈر کی وجہ سے انہوں نے قانونی کارروائی کی۔ خیر جتنے منہ اتنی باتیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ خواتین کے خلاف باتیں کرنے کی سزا خلیل الرحمان قمر کو عورتوں ہی کی وجہ سے ملتی رہتی ہے۔ کبھی ان پر الزام لگتا ہے کہ اداکارہ ایشل فیاض سے ایک اور شادی کھڑکا لی ہے جناب نے۔ اگرچہ یہ خبر غلط نکلی مگر خوب درگت بنائی لوگوں نے خلیل جی کی۔ ماروی سرمد اور ماہرہ خان سے بدتمیزی پر بھی لوگوں نے جناب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ طاغوت والے پروگرام میں لڑکی سے بدتمیزی پر بھی لوگوں نے خلیل جی کو خوب کھری کھری سنائیں۔ اور تازہ ترین واقعہ ہے آمنہ عروج سے ڈراما سازی پر ہونے والے ہنگامے کا۔
خلیل جی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں ڈاکٹر نے دن میں نکلنے سے منع کر رکھا ہے اس لیے وہ رات کو ملاقات کو گئے تھے۔ مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس تپتی دوپہر میں کر ڈالی جناب نے۔ اب کیوں نکلے دن میں پریس کانفرنس کرنے؟ شام کو کر لیتے نا۔ رہا کالا چشمہ تو وہ اس لیے لگا رکھا تھا کہ شاید لوگوں سے نظریں ملانے قابل بھی نہیں رہے خلیل جی۔ غالباً اسی لیے آنکھیں چرا بلکہ چھپا رہے تھے کیونکہ آنکھیں سچ بول دیتی ہیں۔ شاید مبینہ جھوٹ پکڑے جانے کا ڈر تھا اس لیے کالا چشمہ لگا لیا۔ رہی وہ کالک جو Netizens مبینہ طور پر ان کے منہ پر ملنے کی کوشش کر رہے ہیں تو شاید اس کا کوئی توڑ نہیں خلیل جی کے پاس۔
تو جناب یہ ہے ساری کہانی، اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ خلیل الرحمان قمر ڈراما سازی کے لیے ہی گئے تھے لڑکی سے ملنے یا گل وِچ کوئی ہور اے؟