ایسی ہی صورتحال ہمارے ہاں گُزشتہ دنوں اخبارات میں دیکھنے کو مِلی۔ گروپ کپتان (ریٹائرڈ) سیف الاعظم طویل علالت کے بعد ۸۱ برس کی عمر میں بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں چودہ جون کو رحلت فرما گئے۔ ہمارے ہاں نہ صرف اُنیس سو پینسٹھ کی پاک ۔ بھارت جنگ بلکہ اُنیس سو سڑسٹھ کی عرب ۔ اسرائیل جنگ میں سیف الاعظم صاحب کی نمایاں کارکردگی کو اُجاگر کیا گیا اور اعلیٰ عسکری عہدیداران کی جانب سے اُن کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ اُنکی وفات پر افسوس کا اِظہار کیا گیا۔ یہ سب تو ٹھیک ہے، ہم خود بھی پڑوسی ممالک، خصوصاً بنگلہ دیش سے تعلقات مُستحکم کرنے کے خواہشمند ہیں اور چاہتے ہیں کہ نہ صرف مُقتدر حلقے بلکہ عام پاکستانی بھی اپنے اندر جھانکیں اور دیکھں کہ ہم سے کہاں کہاں اغلاط اور کوتاہیاں سرزد ہُوئیں اور کہاں ہم صریح زیادتی کے مُرتکب ہُوئے کہ ہمارے بنگالی بھائی، بہن ہم سے جُدا ہونے پر مجبور ہو گئے؟
اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہمت نہیں رکھتے تو پھر سیف الاعظم صاحب کی توصیف میں اخباری بیانات نہ صرف مُنافقت بلکہ ایک سابقہ شہری کی موت کو سستی چالبازی کے لئیے استعمال کرنے کے مُترادف ہوں گے۔ کیا دُنیا یہ پُوچھنے میں حق بجانب نہیں ہوگی کہ اگر ہم سیف الاعظم صاحب کی خدمات کا اعتراف اِس لئیے کر رہے ہیں کہ وہ اُنیس سو اِکہتر سے قبل پاکستانی تھے، تو وہ تو مجیب الرحمٰن اور مولانا بھاشانی اصحاب بھی تھے، اُن کے گیت کیوں نہیں گاتے؟ یا ایکا ایکی سیف الاعظم صاحب کی یاد اِس لئیے آئی کہ اُنہوں نے پینسٹھ کی جنگ میں بھارت کو گُزند پُنہچائی تھی؟ اگر خدانخواستہ اُن کی جانب رغبت محض بھارت کو اِشتعال دلانے کے لئیے ہے تو صاحب یہ تو اِنتہا ہے اِخلاقی اِنحطاط کی ۔ ایک اِنسان کی موت کو سیاسی مقاصِد کے لیئے اِستعمال کرنا شرافت اور رواداری کی تمام حدود کو پھلانگنے کے مترادف ہے۔
اِس تمام معاملے میں ایک اور مسئلہ بھی ہے اور وہ ہے ہماری مِن حیث القوم پست ہمتی۔ جِن اقوام سے خود کوئی کارنامہ سرانجام تو کُجا سرزد بھی نہ ہو، وہ دوڑ دوڑ کر دوسروں کے کارہائے نمایاں میں اپنا خیالی حِصہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اِس سلسلے میں عرب فتوُحات کو ’’مسلمانوں کی جیت‘‘ یا تُرکوں کے جِدال کو ’’ہندوستان پر مسلمانوں کی سات سو سالہ فرمانروائی‘‘ قرار دینا آج کل کافی زیرِ بحث ہے۔ اگر بنگلہ دیش کے قیام سے قبل کے تمام مشرقی بنگالی پاکستانی ہیں تو اِس منطق کے تحت محمد علی جِناح صاحب اور لیاقت علی خان صاحب اور ہمارے، آپ کے والدین اِنڈین تھے۔ ایسا مان لینے میں کوئی مُضائقہ نہیں کیونکہ سن سینتالیس سے پہلے پاکستان تھا ہی نہیں۔ اگر نہیں مانتے تو یہ ’’ ٹِیّاں ‘‘ کی سطح کی ہٹ دھرمی ہے، اور اگر مانتے ہیں تو صاحب اپنے والدین اور اجداد کی جائے پیدائش اور وطنِ مولوُف کا کچھ تو پاس کریں، اِختلاف کریں، نفرت کس بات کی؟
محاوروں اور اخبارات کا تذکرہ چل ہی نِکلا ہے تو ایک قِصہ اور سُن لیں۔ ’’ ٹِیّاں ‘‘ کا ہم وزن ہے ’’سیّاں‘‘، یعنی ’’ سیّاں بھئے کوتوال، اب ڈر کاہے کاـ‘‘ جس دِن سیف الاعظم صاحب سے مُتعلق خبر چھپی اُسی روز مُلکی اخبارات میں یہ خبر بھی لگی کہ فرانس کی ایک عدالت نے ایک مقدمہ، جو کہ ’’کراچی افئیر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، میں فرانس کے متعدد افراد کو قید و جُرمانے کی سزائیں سُنائی ہیں جو کہ ماضی میں اعلیٰ سیاسی عہدوں پر فائز رہ چُکے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک سابقہ فرانسیسی وزیرِاعظم بھی زیرِ تفتیش ہیں۔ معاملہ نوے کی دہائی کے وسط میں فرانس کی جانب سے پاکستان اور سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت کے سلسلہ میں رشوت، کمیشن اور کِک بیک (حِصہ، پتّی) کی وصولی کا ہے۔
مُلزمان پر الزام یہ ہے کہ اُنہوں نے اسلحہ کی فروخت کے سِلسلے میں رشوت دی اور اُس کے عوض کِک بیک وصول کئیے۔ سزایافتہ افراد کا کہنا ہے کہ وہ اِس فیصلے کو فرانس کی اعلیٰ عدالتوں میں چیلینج کریں گے۔ حتمی فیصلہ آنے تک کُچھ کہا نہیں جا سکتا مگر کیا یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ آبدوزیں بیچی گئی ہوں پاکستان کو اور رشوت دی گئی ہو اور کِک بیک وصول کئیے گئے ہوں ایتھوپیا سے؟ بھئی یہ سب معاملہ بھی تو کسی پاکستانی اِکائی ہی سے ہُوا ہوگا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلحہ بیچنے والے مُلک کی عدالت ماضی کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو بد عنوانی کی سزا سُنا دے اور اسلحہ خریدنے والا فریق کسی طور ملوث ہی نہ ہو؟ جِس طرح اِس معاملے میں ریٹائرڈ ایڈمِرل منصورالحق کے خلاف مختلف ادوار میں بد دِلی سے تحقیقات ہُوئیں اور معاملہ پلی بارگین (پیسے کی لین دین کے بدلے سزا میں معافی یا تخفیف) تک محدود رہا، کیا فرانسیسی عدالت سے سزاؤں کے بعد کوئی مزید چھان پھٹک متوقع ہے۔
کیا اِس گورکھ دھندے میں مُلوث دیگر افراد کے کیفرِ کردارتک پہنچنے کا اِمکان ہے؟ یا یُوں سمجھا جائے کہ چُونکہ معاملہ ہمارے اِجتماعی ’’سیّاں‘‘ کا ہے وہ یُونہی کہتے پھریں گے کہ ’’ٹِیّاں میرے باپ کی'۔