تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
ہمارے والد بچپن میں اکثر ایک حکایت سنایا کرتے تھے کہ انسان کے تین والد ہوتے ہیں۔ ایک اس کو دنیا میں لانے والا، دوسرا اس کا سسر اور تیسرا اس کا استاد اور استاد کا رتبہ ان تینوں میں افضل ہے۔ یہ حکایت اگرچہ مستند حوالوں سے ثابت نہیں ہے مگر ان کا مقصد شاید ہمارے کچے ذہن میں استاد کا احترام اجاگر کرنا تھا۔ جب کچھ ہوش سنبھالی اور تعلیمی سلسلہ آگے بڑھا تو اندازہ ہوا کہ استاد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی عزت زبردستی کروانا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ جن کا احترام کرنے کو آپ کا دل چاہتا ہے۔ مغیث صاحب دوسری قسم کے استاد تھے۔ اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ساتھیوں کے لئے قاری مغیث اور اپنے شاگردوں کے لئے پروفیسر یا ڈاکٹر مغیث۔ ان سب کو سوگوار چھوڑ کر وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔

میرا ذاتی تعلق ان سے دو عشروں سے زائد پر محیط رہا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یادوں کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آتا ہے اور اشکوں کی ایک لہر بہانے بہانے سے رواں ہوتی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ ان سے پہلا تعارف تب ہوا جب 1999 میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں داخلہ لیا۔ وہ چند سال پہلے امریکہ کی آئیووا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے آئے تھے اور شعبے میں وہی جدید تبدیلیاں لانے کے داعی تھے جن سے وہ خود استفادہ کر چکےتھے۔ تمام اساتذہ میں وہ ایک الگ پہچان رکھتے تھے۔ اکھڑ مزاج مشہور تھے مگر ان کا لیکچر واحد ہوا کرتا جس میں کینٹین سے اٹھ کے خود سے جانے کو دل چاہتا تھا۔ کچھ نئی باتیں سیکھنے کو ملتی تھیں۔ اگرچہ شروع شروع میں سمجھ کچھ کم آتی تھی مگر وہ آپ کو سوچنے پر اور مزید جاننے پر اکساتے تھے۔ ایک استاد کا یہی کام ہوتا ہے۔ وہ رٹو طوطے تیار کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ یکسانیت اور سستی ان کی شخصیت کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ اوسط درجے پر مطمئن ہو جانے والوں سے انہیں الجھن تھی۔ اسے لئے وہ محنت اور سوال کی جستجو میں لگے رہتے تھے اور ایسے ہی طالب علم ان کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے تھے۔

ہم جیسے ڈرے سہمے نئے طالب علوں کے لئے ان کی شخصیت سحر انگیز تھی اور یہ سحر زندگی بھر طاری رہا۔ کچھ تو ایسا تھا ان میں جس نے پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے لڑکے کو متاثر کیا۔ یہ سوچنا شروع کیا کہ یہ استاد اگر ہمیں جستجو کے سفر پر لے جانا چاہتا ہے تو کیوں نہ اس کی انگلی تھام کر چل پڑیں۔ جب سوال کرنے شروع کیے اور کلاس میں ان سے ہونے والے گفتگو میں شریک ہونا شروع کیا تو انہوں نے مزید حوصلہ افزائی کی۔ ان کی دوربین نگاہوں نے نہ جانے جنوبی پنجاب کے ایک دورافتادہ گاؤں سے آنے والے نوجوان میں کیا دیکھا کہ اسے اپنے حلقہِ ارادت میں شامل کر لیا۔

ہم بھی ان کے نظروں میں اپنا مقام درست ثابت کرنے کو جت گئے۔ عقیدت کا سلسلہ کلاس روم سے باہر نکل گیا۔ اب مغیث صاحب باہر کینٹین پر چائے پی رہے ہیں تو ہم بھی جمگٹھے میں شامل ہیں۔ کسی سیمینارمیں مدعو کیے گئے ہیں تو جن دوچار شاگردوں پر نگاہِ کرم پڑی ان میں ہمارا بھی نام شامل ہے۔ کہیں خود نہیں بھی جا پائے مگر سمجھا کہ ہمیں فائدہ ہو گا تو شرکت کی تاکید کی اور بعد میں رپورٹ بھی لی۔

ان محافل میں ان کا ایک نیا شگفتہ روپ دیکھا جو کلاس کے سخت گیر استاد سے مختلف تھا۔ لطائف اور قصے کہانیاں سنانے والے یہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ہم سب کے دیوتا تھے اور ہم ان کے پجاری۔ میں نے پہلی بار کسی شیخ کو شیخوں کے لطیفے سنا کر اپنے اوپر ہنستے دیکھا۔ جب وہ اپنے امریکہ میں قیام اور تعلیم کی داستانیں سناتے تھے تو ہم اسے پرستان کی کہانیاں سمجھ کر سنتے تھے۔ بس ایک خیال باقی رہتا تھا کہ اگر امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انسان ڈاکٹر مغیث بن جاتا ہے تو کسی روز ہم بھی اس کھوج میں کیوں نہ نکلیں۔ بقول فیض ’’نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی۔‘‘ جس استاد نے اپنے شاگردوں کو جستجو کے سفر پر آمادہ کر لیا اس کی کامیابی میں کیا شک رہتا ہے؟

ڈگری کی تکمیل کا وقت قریب آیا تو فکرِ معاش لاحق ہوئی۔ ملا کی دوڑ مسجد تک اور ہماری رسائی ڈاکٹر مغیث تک۔ ان کے سفارشی خط لے کر میں اور مجھ جیسے نہ جانے کتنے اگلی منزلوں کی تلاش میں نکلے۔ ہر جگہ ان کے سابقہ شاگرد موجود تھے۔ ایک میگزین کے مدیر کے نام ان کا خط کام کر گیا اور ہم نے وہاں لکھنا شروع کر دیا۔ مشاہرہ کچھ نہیں تھا مگرامید تھی اور ڈاکٹر صاحب کی حوصلہ افزائی ہمقدم تھی۔ ان کا بچپن عسرت میں گزرا اور وہ اکثر اس وقت کو یاد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے ایسے طالب علموں کے لئے فکرمند رہا کرتے تھے جو کسی قسم کی مشکلات کا شکار ہوں اور ہمت بندھاتے رہتے تھے۔ جب باقاعدہ نوکری ملی تو تعلیمی شعبے کی رپورٹنگ کی ذمہ داری مل گئی۔ ہم پھر ان کے آستانے پر جا دھمکے۔ اب ملاقاتیں بڑھ گئیں۔ کبھی انہیں کسی خبر پر شکایت بھی ہوئی اور تنبیہ بھی کی تو اس سے تعلقِ خاطر میں کوئی رخنہ نہیں آیا۔ رفاقت دو عشروں سے زائد پر محیط ہو تو بیچ میں کئی مقاماتِ آہ وفغاں بھی آتے ہیں۔ غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں۔ مگر نہ ہم نے احترام کا دامن چھوڑا نہ انہوں نے شفقت کا۔ سرزنش البتہ ہمیشہ کی اور اس لہجے میں اپنا حق سمجھ کر کی جیسے ایک باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے۔ آج جب مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ ان کے مزاج میں کبھی کبھی در آنے والے تلخی دراصل اردگرد کے ماحول سے ان کی الجھن کی عکاس تھی۔ جب مجھے خود بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملا کہ ان جیسی صلاحیتوں والے آدمی کے لئے واپس پاکستان جا کر کوئی تعمیری کردار ادا کرنے کی کوشش کرنا اور اس سعی میں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا کس درجہ مایوسیوں کا باعث بنا ہوگا۔

میرا پہلا غیر ملکی سفر ان کے ساتھ تھا جب 2004 میں ان کے ساتھ ایک کانفرنس کے سلسلے میں کوالالمپور جانے کا اتفاق ہوا۔ دو ہفتے کے اس دورے میں ان کی شخصیت کے نئے اور دلچسپ پہلو دیکھنے کو ملے۔ استاد کی شفقت اور رہنمائی اپنی جگہ موجود رہی مگر اب تعلق دوستانہ رنگ میں ڈھل گیا۔

اس دورے کے بعد پہلی بار انہوں نے مجھے بطور استاد شعبے کا حصہ بننے کو کہا۔ میں نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے باعث پہلو تہی کی تو ایک روز برکت مارکیٹ میں اپنے پسندیدہ ریستوران پر لے گئے۔ وہاں کھانے کے دوران گویا ہوئے کہ میں تمہارا نام شامل کر رہا ہوں اور نہ نہیں سنوں گا۔ یہ بھی بولے کہ اخبار کی نوکری ہوائی روزی ہے (تب تک ٹی وی چینل اتنے عام نہیں ہوئے تھے اور تنخواہیں کم تھیں)، تدریس کا شعبہ تمہارے لئے بہتر اور مالی طور پر مستحکم مستقبل مہیا کرے گا۔

پڑھانا شروع کیا تو دیکھا کہ بطور ایک منتظم ان کے اندر کتنی زیادہ توانائی اور تحریک تھی۔ وہ ہمہ وقت کسی نئی منصوبہ بندی میں مصروف رہتے جس سے شعبے کو اوپر لے جایا جا سکے۔ اکثر وہ ہم سے پہلے دفتر میں موجود ہوتے اور سب سے آخر میں گھر جاتے۔ ہم تھک جاتے تھے مگر وہ نہیں۔ بس اگر کرکٹ میچ جاری ہے اور پاکستان کی ٹیم کھیل رہی ہے تو ان کی خواہش ہوتی تھی کہ میٹنگز کے دوران بھی سکور پتہ چلتا رہے۔ کئی ایسے واقعات کا گواہ ہوں جہاں کسی مستحق طالب علم کی چپکے سے مالی امداد کر دی یا کوئی غیر معمولی ترکیب لڑا کر داخلہ دے دیا۔

میرے ایک ساتھی کے بیٹے کا داخلہ جب ممکن نہیں ہو رہا تھا اور وہ مصر تھے کہ میں ان کی سفارش کروں تو اپنے ایڈیٹر کے کہنے پر ان کی تشفی کے لئے میں ساتھ چل دیا۔ انہیں باہر انتظار کرنے کا کہہ کر دفتر میں گیا اور مغیث صاحب سے صورتحال عرض کی۔ درخواست کی کہ متعلقہ صاحب مان کر نہیں دے رہے۔ ایڈیٹر کے کہنے پر ان کے ساتھ آیا ہوں۔ اگر وہ آپ کے منہ سے انکار سن لیں گے تو ان کی تسلی ہو جائے گی اور میری جان چھوٹ جائے گی۔ بغیر کچھ کہے ڈاکٹر مغیث نے ان صاحب کو اندر طلب کیا۔ چائے پلائی اور داخلوں میں درپیش مشکلات پر ایک پھرپور لیکچر دیا۔ اس کے بعد ایک دم بولے کہ آپ جس کے ساتھ آئے ہیں یہ میرا بیٹا ہے۔ اگر میں اس کے کہنے پر داخلہ نہیں کروں گا تو کسی کے کہنے پر نہیں کروں گا۔ گھنٹی بجا کر اپنے اسسٹنٹ کو بلایا اور کہا کہ ان سے فارم بھروا لو اور شام کے داخلوں کی فہرست میں شامل کر لو۔ وہ صاحب ہکا بکا رہ گئے اور میں بھی۔ میرے پورا واقعہ بتانے کے باوجود وہ آج تک میرے احسان مند ہیں اور میں مغیث صاحب کا۔ واضح رہے کہ ان دنوں میں پڑھانا چھوڑ چکا تھا اور وہ میرے چھوڑ کر جانے پر خاصے خفا تھے۔ یہ واقعہ ان کی بے پایاں محبت کی صرف ایک جھلک ہے۔

وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مجھے پی ایچ ڈی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کو کہا۔ ایک بار تو غیر ملکی سکالرشپ کا درخواست فارم بھی پرنٹ کر کے دیا جسے میں نے دیکھے بغیر ایک طرف رکھ دیا۔ مگر ان کی تاکید مسلسل جاری رہی۔ ایم فل کے دوران اپنی دائمی سستی کے سبب جب میں تھیسس مکمل نہیں کر پا رہا تھا تو وہ مسلسل مجھے سمجھاتے رہے کہ ڈگری مکمل کر لو، زندگی میں تمہیں فائدہ ہی ہو گا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو یہ ڈگری کبھی مکمل نہ ہوتی اور نہ میں آگے داخلہ لینے میں کامیاب ہوتا۔ جس دن انہیں یہ خبر سنائی کہ امریکہ کا سکالرشپ مل گیا ہے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ کھانے پر لے گئے اور تعلیم اور ذاتی زندگی کے اگلے مراحل کے بارے میں کئی نصیحتیں کیں۔

بیرونِ ملک منتقل ہونے کے بعد سے ملاقاتوں کا سلسلہ اتنے تواتر سے جاری نہیں رہ سکا، مگر جب بھی کوئی نئی منزل سر کی یا کامیابی ملی تو ان کا مبارکباد کا پیغام موصول ہوا۔ جب بھی تعطیلات میں پاکستان واپس گیا تو حاضری دینے کی کوشش کی۔ ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران جب وہ پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائر ہو چکے تھے اور ایک نجی ادارے سے وابستہ ہوئے تھے، انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کیا رکاوٹیں درپیش ہیں اور کتنے ایسے منصوبے ہیں جنہیں وہ پایہِ تکمیل تک اس طرح نہیں پہنچا سکتے جیسا انہوں نے سوچا تھا۔ اندازہ ہو گیا کہ نجی شعبے میں انہیں سرکار کی نسبت زیادہ مشکلات کا سامنا رہے گا۔ مگر وہ ڈاکٹر مغیث ہی کیا جو ان مشکلات سے ہار مان لیتے اور آخری سانس تک نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش جاری نہ رکھتے۔ اس جدوجہد کا منفی اثر بحرحال ان کی صحت پر پڑا۔ اگران کی گرتی صحت کردار ادا نہ کرتی تو شاید کرونا وائرس انہیں اپنا شکار بنانے میں کامیاب نہ ہوتا۔

جتنی مختلف النوع شخصیت انہوں نے پائی تھی اتنی ہی انوکھی وبا ان کے دنیا سے جانے کا باعث بنی۔ یہ خبر ان کے شاگردوں اور چاہنے والوں پر حقیقتاً بجلی بن کر گری۔ سب اپنے ساتھ گزرے واقعات کا تذکرہ کر رہے ہیں اور ان کی محبتوں کا خراج ادا کر رہے ہیں۔ مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا ہونا ممکن نہیں۔ کس کس قصے کو یاد کیجئے اور پھر یہ کیسے ممکن کہ دل بھر نہ آئے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کا خلا کبھی پر نہ ہو گا۔ درست مگر خلا کیسا؟ وہ گئے کہاں ہیں؟ وہ تو اپنے ہزاروں شاگردوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ہم ان سے مل چاہے نہ پائیں مگر دوستوں کی کوئی بھی محفل ان کے ذکر سے خالی کیسے ہو گی؟ وہ کل بھی ہمارے دیوتا تھے، آئندہ بھی رہیں گے۔ ہم کل بھی ان کے پجاری تھے، آئندہ بھی رہیں گے۔ محبتوں اور عقیدتوں کے سلسے تو دائمی ہوتے ہیں، بھلا کبھی یوں بھی ختم ہوئے ہیں۔ بالکل ویسے جیسے کبھی ہم مصروف بھی ہوئے تو وہ ہم سے غافل نہیں رہے۔ چپکے سے کسی سوشل میڈیا پوسٹ پر اپنا کمنٹ چھوڑ جاتے تھے اور ہمارا خون بڑھ جاتا تھا۔

آپ نے ان تھک کام کیا سر، ان گنت دیے جلائے۔ ان شمعوں کی روشنی آپ کو حیاتِ جاوداں دے گی۔ قدرت چاہتی ہے کہ اب آپ کچھ آرام بھی کر لیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب جب ہم کوئی سنگِ میل عبور کریں گے یا آپ سے سیکھے ہوئے سبق آگے منتقل کریں گے تو آپ کسی ستارے کی صورت ہمیں دیکھ رہے ہوں گے، مسکرا رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ’’یہی تو میں تم سے چاہتا تھا۔ مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘ یقین رکھیں سر ہم یہ مان ٹوٹنے نہیں دیں گے۔

مصنف امریکہ کی لامار یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔