تاریخ کی اس ہماہمی میں اشرفیہ کے نقطہ نگاہ سے معاملات کو دیکھنے والے والے بیانیہ سازوں کے کھاتے میں تو عوام مکمل طور پر جاہل بے بس اور اپنے معاملات کے بارے میں فیصلہ نہ کرنے کی طاقت رکھنے والے ہیں۔ ان کے مطابق حکمران طبقے مقتدر طبقے کی جانب سے منتخب شدہ افراد ہی عوام کے لئے رہنما بن سکتے ہیں۔ کسی نظریے کے تحت اس سے قبل عوام کے لئے حکمران مینوفیکچر کیے گئے۔
اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن اس میں جدت لائی گئی ہے۔ اب ان حکمرانوں کو مکمل طور پر عوامی رنگ ڈھنگ دینے کے لئے آمرانہ سوچ رکھنے والی فاشسٹ شخصیات کے غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے اور انہیں عوامی لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ریاستی اور نجی میڈیا اس حوالے سے لیڈرز کی مینوفیکچرنگ میں مدد کرتا ہے اور انہیں قوم کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور پھر جب انہیں بھاری بھر کم تعداد میں لوگ ماننے لگتے ہیں تو اس کیس کو ایسے ہی پیش کیا جاتا ہے کہ عوام جاہل ہیں۔ اور پھر دانشور طبقہ بھی مایوسی کے عالم میں اس بیانیے کے ساتھ ہو جاتا ہے۔
مثلاً گذشتہ نواز شریف حکومت کو فارغ کرنے کے پروجیکٹ میں تحریک لبیک کا دیو کھڑا کیا گیا۔ اس کی قیادت کو سچا عاشق رسولﷺ اور اس کی قیادت کے ہر مخالف کو خدا نخواستہ دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ گذشتہ سال نومبر میں تحریک لبیک کے سربراہ مولانا خادم رضوی کے جنازے کو ان کی سیاسی و مذہبی اور سماجی جیت قرار دیا گیا اور ان کو اصل عوامی لیڈر قرار دیا گیا۔ اس دوران ان کے فاشسٹ رویے اور متشدد پالیسیوں کو بیانیے میں سے یوں نکال دیا گیا جیسے مکھن میں سے بال۔ اس حوالے سے بائیں بازو کی قوتوں نے بھی ایک مایوسی پر مبنی بیانیہ تشکیل دیا اور خوف سے لبریز تجزیے پیش کیے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تجزیے مکمل غلط ہیں۔ مگر شاید مبالغہ آرائی ان میں موجود ہے۔ ان کے جنازے کو یوں پیش کیا گیا گویا تحریک لبیک پاکستان ہی دراصل پاکستان کے عوام کی حقیقی نمائندہ تھی اور خادم رضوی نے جمہوری قوتوں کو بتا دیا ہے کہ عوام کس طرف کھڑے ہیں۔
اللہ کا کرنا لیکن یہ ہوا کہ کوئی دو ماہ بعد ملک میں ضمنی انتخابات کا دور شروع ہو گیا۔ اللہ کے فضل سے ایک سیٹ بھی سیٹھ میڈیا کے کھڑے کیے اس ہوا نے نہ جیتی۔ کہیں 8 ہزار ووٹ تو کہیں 10 ہزار لیکن جیتنے والوں کیا، ہارنے والے امیدوار سے بھی کوئی ایک لاکھ کم۔ لیکن میڈیا میں مڈل کلاس طبقات کو جو سمجھانے کا ٹاسک ملا تھا وہ پورا ہو چکا تھا۔ انہوں نے الیکشن میں جیتنے والوں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیں، انہیں جاہل کہا اور خادم رضوی کے جنازے جیسے جلسے نہ کر پانے پر جموہری قوتوں کو عوام کے ٹھکرائے ہوئے ثابت کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔
چھوٹے صوبوں میں لیکن نہ تو اربن مڈل کلاس کا ایسا زور ہے جیسا ہم پنجاب میں دیکھتے ہیں اور نہ ہی وہاں لوگ اپنے حقوق سے اس قدر غافل یا سیٹھ میڈیا کے دیے بیانیے سے اس قدر مغلوب کہ اپنی عقل کا استعمال ہی نہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جمہوریت کے حق میں اٹھنے والی آوازوں اور مجمعوں کو دیکھتے ہیں۔ پنجاب میں چاہے عنانیت پرست رجحانات کو سپورٹ ملتی ہو لیکن چھوٹے صوبوں میں جمہوریت کے لئے توانا آوازیں ضرور موجود ہیں۔ اور یہ عثمان خان کاکڑ جنازے نے مزید واضح کر دیا ہے۔ عثمان کی موت کے ارد گرد ان کے رشتہ داروں نے جو سوالات کا جال بنا ہے وہ ہر سوچنے والے کو اپنی پکڑ میں لیتا ہے اور پھر ان کی سینیٹ تقریر جس میں انہوں نے براہ راست موت کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر ڈالی تھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
عثمان خان کاکڑ جو ہمیشہ کمزوروں کی، پسے ہوئے طبقوں کی اور جمہوریت کی آواز بنے۔ جنہوں نے ہر دور میں آمریت کو چیلنج کیا۔ عثمان خان کاکڑ کے جنازے میں جوق در جوق عوام کی شرکت نے یہ ثابت کیا کہ بلوچستان میں جمہوریت پسندوں کی قدر موجود ہے۔ وہاں پر عوام جمہوریت کے سپاہیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ کون جمہوریت کے لبادے میں چھپا ہوا ہائبرڈ رجیمز کی کاسہ لیسی کر رہا ہے اور کون جمہوریت کے اصل کارکن ہیں۔ اگر جنازوں سے ہی سیاست کے فیصلوں کو مانا جائے گا تو پھر عثمان خان کاکڑ جو بلوچستان کی زمین کا بیٹا ہے، اس کے جنازے نے فیصلہ دے دیا کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے؟ وہ علیحدہ بات ہے کہ ریاست کے زیر اثر میڈیا اس ہوا کے رخ کو کبھی بھی نہیں دکھانا چاہے گا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے دور دور سے آ کر اس جنازے میں شرکت کی۔ کچھ نے کہا یہ پختون خطے کی تاریخ کا بڑا جنازہ ہے۔ لوگ موٹر سائیکلوں پر دوسرے اضلاع سے آ رہے تھے۔ رو رہے تھے، بلک رہے تھے۔ اور عثمان کاکڑ کی آخری تقریر کے یہ الفاظ اس کا جنازہ سچا کر رہے تھے کہ میری جان مجھے عزیز نہیں ہے، یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی مجھے عزیز ہے، میری قوم مجھے عزیز ہے، میری عوام مجھے عزیز ہے، میری سیاست مجھے عزیز ہے۔