اگر ایسا ہے تو اے ایس پی عطا الرحمن کو حکم صادر فرمانے والا جان سے مارنے کے احکامات نہیں دیتا تو غالب امکان تھا کہ مسئلہ وہیں رفع دفع ہو جاتا۔ کیونکہ جب اے ایس پی کو قتل کرنے کی احکامات نہ ملتے تو پولیس والا بندوق کا بٹ آہستہ مارتا، پھر اے ایس پی گرج دار آواز میں نہ کہتا کہ "میں کہتا ہوں اسے جان سے مار دو"۔
اچھا اگر پھر بھی تھانیدار دو مہینے تک ایف آئی آر کو مؤخر نہ کرتا بلکہ جلدی جلدی لکھ ڈالتا تو کیا برا ہوتا۔ ارمان قربانی نہ دیتے تو دنیا کے بتیس شہروں میں احتجاجی مظاہرے نہیں ہوتے۔ قوم پرستی کی سوچ نوجوانوں تک نہیں پھیلتی اور پھر وزیرستان کی جنگ زدہ نوجوان مورچے کے بجائے یونیورسٹی کا مطالبہ اتنی جلدی نہ کرتے۔
وزیرستان کے چار نوجوان دوست جن کے فکری نظریات بھی ایک تھے۔ ان میں سے ایک این ڈی ایم کا سرکردہ رکن، ایک جمیعت و الخدمت کا سپاہی، ایک تعلیمی جہادی (استاد)، اگر اپنے اپنے کام کرتے تو شاید دوست کے گھر دعوت کو خوب انجوائے کرتے ہوئے اور صحیح سلامت گھر جاتے۔
لیکن اپنے کام کے ساتھ اجتماعی قومی مفاد نامی شے کا وجود ہے جس کی ذکر ارمان لونی بھی کرتے تھے اور سنید داوڑ، وقار داوڑ، اسد اللہ اور عماد داوڑ بھی۔
مورچے کے بجائے تعلیمی ادارے کے مطالبات میں کیا حرج ہے؟ مورچے کی ضرورت وہاں ہو سکتی ہے جب دفاع ناگزیر ہو، وزیرستان بھی انتہائی متاثر ہے لیکن دس ہزار مورچے کیسے مستقبل پیدا کریں گے؟
اگر یہی نوجوان مورچے ختم کرنے اور تعلیم پھیلانے کا پیغام نہیں پہنچاتے تو شاید زندہ بھی ہوتے لیکن مورچہ اور تعلیم کا فلسفہ مجھ تک نہیں پہنچتا اور میں یہ تحریر نہ لکھ رہا ہوتا۔
ان کی شہادت پر بلوچستان کے علاقے ژوب، لورالائی، چمن، ہرنائی سمیت خیبر پختونخواہ کے علاقے ڈی آئی خان، بنوں، صوابی، وزیرستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں ہوئیں۔
وزیرستان دہائیوں سے ہر زاویے سے بلوچستان کی طرح متاثر ہے۔ بلوچستان اور وزیرستان میں حکومتیں بدلنے سے ریاستی پالیسی کیوں نہیں بدلتی اور ان پالیسوں کے پیداوار انتہائی سخت نعرے منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچتے؟ اگر کسی کو بس یونہی مار دینا ہی ہمارا مستقبل ہے تو یہ انتہائی تباہ کن، دردناک اور پیچیدہ ہے۔