سوشل میڈیا ایکٹیوازم میں کراچی کی ایک توانا آواز ارسلان خان کی زندگی بھی انہی دو ادوار میں بٹ گئی جب ٹھیک ایک سال قبل انہیں ان کے گھر پر دھاوا بول کر رینجرز اور خفیہ اداروں کے اہلکار تشدد کرتے ہوئے لے گئے۔ 24 جون 2022 کی وہ صبح انہیں کبھی نہیں بھولے گی جب باوردی اور سادہ لباس میں درجنوں اہلکار ان کے گھر داخل ہوئے، انہیں ساتھ چلنے کو کہا اور ان کی اہلیہ کے ساتھ بد زبانی کرتے رہے۔
'میں نے یہی سوچا کہ بس میں جلد از جلد ان کے ساتھ چلا جاؤں جہاں وہ مجھے لے جانا چاہتے ہیں کیونکہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا'۔
ان کے مطابق انہوں نے مسنگ پرسنز کے حوالے سے بہت لکھا اور وہ جبری گمشدگی کو لے کر کافی حساس بھی تھے لیکن جب خود ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو اس نے ان کی زندگی ہی بدل دی۔ 'ایک ہوتا ہے کہ آپ ایک تجربے کے بارے میں کچھ جانتے ہیں، اسے سمجھتے ہیں اور ایک ہوتا ہے کہ آپ خود اس تجربے سے گزرتے ہیں۔ میں نے ایک دن کے لیے اس اذیت کو برداشت کیا اور جیا تو سمجھ آیا کہ لاپتہ افراد اور ان کےخانوادے پر کیا گزرتی ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ لاپتہ ہونے والے سندھی، پشتون، بلوچ اور مہاجر حضرات پر کیا گزرتی ہو گی اور میری نظر میں تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنا ان سب کا ایک آئینی حق ہے۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ گھر والوں کو مزید تکلیف دینے کے بجائے انہیں سامنے لایا جائے۔ جو قید میں ختم ہو گئے ان کے پیاروں کو کم از کم آگاہ ہی کردیں'۔
ارسلان رہائی ملنے کے بعد سے شدید پی ٹی ایس ڈی (پوسٹ ٹراما سٹریس ڈس آرڈر) کا شکار ہیں اور آج تک گھر سے نکلنے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں۔ اس آزمائش کو سوچتے ہوئے اب بھی انہیں خوف آتا ہے اور اس کی تفصیل بتانے سے ان کے زخم ایک بار پھر تازہ ہو جاتے ہیں۔ البتہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت خاموشی توڑنا نا صرف ان کے لیے اہم ہے بلکہ ان افراد کے لیے بھی جنہیں ریاستی اداروں نے کافی عرصے سے لاپتہ کر رکھا ہے اور ان خانوادوں کے لیے بھی جو آج تک اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
انہوں نے اغواء ہونے کے وقت اہلکاروں سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک قانون کی پابندی کرنے والے شہری ہیں، انہیں اس طرح نہیں لے جایا جا سکتا جس پر سادہ لباس میں ملبوس جدید ہتھیاروں سے لیس اہلکاروں نے تضحیک آمیز رویے میں جواب دیا کہ 'ایسی کی تیسی تمہاری قانون پسندی کی۔ ریاست کے خلاف لکھتے ہو اور بکواس کرتے ہو'۔
لکھاری سے ریاست مخالف ملزم بننے کا سفر
ارسلان نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر ایک لکھاری ہیں جو مختلف اداروں کے لیے کنسلٹینسی کرتے رہے ہیں۔ 'میں نے ملک کے بڑے بڑے میڈیا اداروں میں جیسے کہ جیو، اب تک، اے ٹی وی، وغیرہ کے لیے کام کیا جبکہ گذشتہ چند سالوں میں سیاسی جماعتوں کے لیے میڈیا کنسلٹینسی کا کام بھی کیا ہے لیکن آج تک کسی بھی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ نا آج تک کسی بھی تھانے میں آپ کو میرا کرمنل ریکارڈ ملے گا۔ میں قریب 4 سال سے بیروزگار تھا اور مجھے اٹھائے جانے کے بعد وہ کام بھی مجھے ملنا بند ہو گیا جو پہلے مل جایا کرتا تھا۔ کئی دوستوں نے فون تک اٹھانا بند کر دیے ہیں'۔
انہوں نے بتایا کہ پراڈو نما گاڑی میں انہیں ڈال کر جب لے جایا جا رہا تھا تو اس دوران لگ بھگ 30 منٹ تک انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جب ان کو ایک مقام پر لے جایا گیا تو قیدیوں کی طرح ان کے ہاتھ پر ہتھکڑی ڈالی گئی اور پاوٗں میں بیڑیاں گویا وہ کوئی خطرناک دہشت گرد ہوں۔
'مجھ سے تفتیش کی گئی اور اس پہلی تفتیش کا دورانیہ تین سے چار گھنٹے تک کا تھا اور اس دوران مجھ پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا'۔
ارسلان نے یہ کہتے ہوئے سارے واقعے کی تفصیل بتانے سے گریز کیا کہ وہ نہیں چاہتے کہ دوسرے اغواء ہونے والوں کی دردناک کہانیاں ان کی ایک دن کی کہانی کی وجہ سے ماند پڑ جائیں۔ البتہ اصرار پر انہوں نے بتایا کہ انہیں تشدد کے دوران برہنہ کیا گیا، ایک کلاشنکوف کو لوڈ کر کے اس کی نال پر بٹھایا گیا اور ان کی ویڈیو بنائی گئی۔ اس دوران اتنا مارا گیا کہ ان کے پاوٗں کے انگوٹھے میں ہیئر لائن فریکچر ہو گیا۔ 'اس سے زیادہ قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور کیا ہو گی؟'
تفتیش کرتے ہوئے انہیں ان کی ٹوئیٹس دکھائی گئیں اور اس بابت سوال کیے گئے۔ مختلف اہم لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان کا ان سے کیا اور کیسے تعلق ہے جبکہ ان پر اس دوران الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایم کیو ایم لندن کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جماعت کے بانی الطاف حسین کی حمایت کرتے ہیں جبکہ ارسلان کے مطابق یہ سب سچ نہیں تھا۔
'ہر انسان ایک سیاسی سوچ رکھتا ہے۔ ویسے ہی میرا بھی ایک نکتہ نظر ہے۔ مجھے پاکستان کا آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ میں آئینی اور قانونی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کوئی بھی سوچ رکھوں۔ 24 جون 2022 تک میں نے کوئی ایسی ٹوئیٹ نہیں کی جو ریاستی اداروں کے خلاف ہو یا جس سے ان کے جذبات مجروح ہوں۔ میں نے بہت کچھ لکھا لیکن کبھی طے شدہ ریڈ لائن کراس نہیں کی۔ مجھے غدار کہا گیا حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ملک سے غداری کا مطلب ہے کہ میں اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنے دادا سے غداری کروں۔ ایسا کر کے میں ان کو کیا منہ دکھاؤں گا؟'
ارسلان کا کہنا تھا کہ ان کے دادا نے پاکستان بننے کے وقت ڈھاکہ ہجرت کی اور ان کے والد اور والدہ نے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پاکستان آنے کو ترجیح دی حالانکہ نوزائیدہ ملک میں ان کی زندگی آسان ہوتی کیونکہ وہ وہاں پولیس میں نوکری کرتے تھے اور ان کو بنگالی زبان پر دسترس تھی۔ ارسلان کے مطابق ان کے والد نے پاکستان کی محبت میں بہتر زندگی کی قربانی دی اور پاکستان آنا مناسب سمجھا لیکن پھر انہی کے بیٹے کو غدار بنا دیا گیا۔
'میں 24 جون سے پہلے ایک عام شہری تھا۔ لیکن 25 جون کے بعد میں ایک دہشت گرد تنظیم سے فنڈنگ لینے والا دہشت گرد بن گیا تھا۔ ایک قانون کی عدالت ہوتی ہے اور ایک عوام کی عدالت۔ اداروں کے الزامات سے میں قانون کی عدالت میں تو بری ہو سکتا ہوں لیکن عوام کی نظر میں ہمیشہ ایک ملزم ہی رہوں گا جب تک کہ میڈیا پر آ کر اپنی بے گناہی کی کہانی خود نہ سناؤں'۔
پاک سرزمین پارٹی یا ایم کیو ایم پاکستان کے لیے کیوں کام نہیں کرتے؟
ارسلان کو ان کی کچھ ایسی ٹوئیٹس سنائی گئیں جن میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان پر نکتہ چینی کر رہے تھے۔ 'مجھے خاص کر ایک وہ ٹوئیٹ سنائی گئی جس میں میں نے پشتون تحفظ موومنٹ کے علی وزیر کی وہ تصویر ڈالی جس میں وہ ننگے فرش پر تھکن سے چور جناح ہسپتال میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہوئی ہے۔ اس ٹوئیٹ میں میں نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ پیپلز پارٹی کی منافقت نہیں ہے کہ ان کی حکومت ہوتے ہوئے سندھ میں علی وزیر کے ساتھ یہ ناروا سلوک برتا جا رہا ہے؟'
ان سے اس بابت سوال ہوا کہ وہ کراچی میں الیکشن کے بائیکاٹ کے حوالے سے کیوں لکھ رہے تھے جبکہ اس بائیکاٹ کا اعلان بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کیا تھا۔ 'مجھ سے کہا گیا کہ تمہیں ایم کیو ایم لندن کے لیے ہی کیوں کام کرنا ہے؟ تم ایم کیو ایم پاکستان یا پی ایس پی کے لیے کام کیوں نہیں کرتے؟ مجھے اس بات پر مجبور کیا گیا کہ میں تسلیم کروں کہ میں نے ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم سے فنڈنگ لی جبکہ میں نے آج تک کسی کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ایک روپیہ نہیں لیا۔ تو اس بات کو کیسے تسلیم کر لیتا؟'
لاپتہ افراد کے لیے کیوں آواز اٹھاتے ہو؟
پھر ان سے سوال ہوا کہ مسنگ پرسنز کے لیے کیوں آواز اٹھاتے ہو اور اس کا کیا معاملہ ہے؟ 'میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ لاپتہ افراد کا کیا معاملہ ہے جس پر انہوں نے مجھے مارتے ہوئے کہا کہ اب ریاست تمہیں بتائے کہ ان افراد کا کیا معاملہ ہے؟'
تفتیش کرنے والوں نے کہا کہ جن کو اٹھایا جاتا ہے انہوں نے ایسا کچھ کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ نوبت آتی ہے۔
واپسی کے بعد متعدد لوگوں نے ان کو یہ آفر کی کہ انہیں ازائلم یا سیاسی پناہ با آسانی دلوائی جا سکتی ہے۔ لیکن اپنی اہلیہ اور بچوں سے بات کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ 'میں سیاسی پناہ لینے والوں کو غلط نہیں سمجھتا البتہ اپنے لیے اس قدم کو نامناسب سمجھتا ہوں کیونکہ میں جہاں پلا بڑھا ہوں، جہاں میرے والد گرامی نے سالوں قبل اپنے قدم رکھے اور جمائے، جس جگہ میری مرحوم والدہ کی قبر ہے، میں وہ ملک اور شہر چھوڑ کر کیوں اور کہاں جاؤں؟'
صرف ادارے ہی نہیں سندھ حکومت بھی میرے اغوا کی ذمہ دار ہے
ارسلان کا کہنا ہے کہ وہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ حادثہ کیوں پیش آیا۔ 'میرا گھر بلاول ہاؤس سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ میں لا محالہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا ہوں کہ آخر ان کی حکومت ہوتے ہوئے مجھے کیوں اور کیسے اغوا کیا گیا۔ صرف یہی نہیں جب میری اہلیہ بوٹ بیسن تھانے گئی تو وہاں کے ہیڈ محرر نے ان کو تھانے سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ جاؤ ہم پرچہ نہیں کاٹ سکتے اور جس میڈیا میں جا کر بیان دینا ہے دے دو'۔
ارسلان نے سوال کیا کہ کیا ان کی اہلیہ ٹیکس نہیں دیتیں؟ کیا وہ بجلی اور پانی کے بل ادا نہیں کرتیں اور سندھ حکومت کو اس پر بھی ٹیکس نہیں دیتیں تو پھر کیا ان کی ذمہ داری نہیں کہ ان کو انصاف دلوایا جائے اور ان کے اغواء کاروں اور افسران جنہوں نے ایف آئی آر کاٹنے سے گریز کیا، کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہئیے؟
'مجھے حیرانی ہے کہ میری اہلیہ کو تھانے سے نکالنے والا واقعہ اس تھانے میں ہوا جو بلاول صاحب کے گھر کی حدود کا تھانہ ہے لیکن جمہوریت کی چیمپئین بننے والی پارٹی نے اس واقعہ کے خلاف کوئی ردعمل نہیں دیا'۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ صرف ریاستی ادارے کو اس واقعہ کا ذمہ دار نہیں سمجھتے بلکہ سندھ حکومت کو بھی ساتھ ساتھ مورد الزام ٹھہراتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا؛ 'یہ میں اس لیے کہتا ہوں کیونکہ رینجرز سندھ میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ حکومت کو صوبے میں امن و امان کے معاملات میں معاونت کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ لہٰذا رینجرز تمام معاملات میں صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کو جواب دہ ہے جبکہ دوسری طرف یہ ادارہ تمام اقدامات سول حکومت کے حکم کی روشنی میں سر انجام دیتا ہے۔ تو پھر کیا بلاول ہاؤس سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دہشت گرد تنظیم سے فنڈنگ لینے والے ملزم کی گرفتاری کے لیے مارا جانے والا چھاپہ کیا صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی اپروول کے بغیر مارا گیا؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تو اور عجیب بات ہے۔ اس سے وزیراعلیٰ اور سندھ حکومت کی اہلیت ہر سوال اٹھتے ہیں۔ سرکاری افسران کے تو تبادلے ہو جاتے ہیں اسی لئے دنیا بھر میں عوامی نمائندوں سے سوال کرنے کا رواج ہے۔ اسی وجہ سے میں سندھ حکومت سے سوال کرنے کا جمہوری، قانونی اور آئینی حق رکھتا ہوں'۔
ارسلان نے بتایا کہ ان کو چھوڑتے وقت اغواء کاروں نے سوال کیا کہ وہ باہر نکل کر لوگوں کو، میڈیا کو کیا بتائیں گے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ وہ چپ سادھ لیں گے۔ اگر اغواء کرنے والے ریاستی ادارے نے اس بابت کوئی بات نہ کی جس کی انہیں یقین دہانی کروائی گئی۔ البتہ جب انہیں چھوڑا گیا تو اس کے ساتھ ادارے نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا کہ ارسلان کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ہے اور وہ تنظیم سے پیسے لیتے رہے ہیں جس میں ارسلان کے مطابق کوئی صداقت نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں چھوڑنے سے پہلے ایک اہلکار جنہیں وہ اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو انداز گفتگو سے کوئی افسر معلوم ہوتے تھے، نے کہا کہ الطاف حسین فی الحال پاکستان میں شجرِممنوعہ ہیں اس لئے ان کے نام سے پرہیز کرو۔
'میں نے جواب دیا کہ جناب میں تو میاں نواز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو سے لے کر عمران خان و منظور پشتین تک ہر سیاسی رہنما کی شخصی جمہوری اور سیاسی آزادی کیلئے ایسے ہی لکھتا اور آواز اٹھاتا رہا ہوں اور میرا ان میں سے کسی جماعت بشمول ایم کیو ایم سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ میں نے تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے الطاف حسین کے لیے بھی آواز اٹھانے کی جسارت کی ہے حالانکہ میں ان کی پارٹی کا کبھی حصہ نہیں رہا'۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک بھر میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت اغواء و گرفتاری کے واقعات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا اعادہ کیا تھا اور ایک بل بھی اسمبلی میں پیش ہوا مگر انسانی حقوق کی سابقہ وزیر شیریں مزاری صاحبہ کے مطابق یہ بل خود کہیں لا پتہ ہو گیا۔
خیال رہے کہ اس بل میں ترمیم کرتے ہوئے ایک شق یہ بھی ڈالی گئی کہ اگر کوئی فرد ریاست پر لاپتہ کرنے کا جھوٹا الزام لگائے گا تو اس کی سزا میں 5 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران گمشدگیوں کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز نے لاپتہ افراد کے خانوادوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اگر ان کی حکومت آئی تو ان مسائل کا حل ہو گا۔ البتہ اب ان کے دورِ اقتدار میں بھی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔