جیسے ہی مارچ کا مہینہ شروع ہوتا ہے، عورت مارچ کو لے کر معاشرے میں گرما گرمی اور بحث مباحثے شروع ہو جاتے ہیں۔ جس میں ایک طرف مذہبی اور نیم مذہبی طبقہ عورت مارچ کے چند نعروں کو بنیاد بنا کر طنز و تشنیع کے تیر چلانا شروع کر دیتا ہے، دوسری طرف عورت مارچ کے حامی بھی اپنے موقف میں شدت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ بظاہر دونوں ہی طبقات معاشرے کی پسی ہوئی خواتین کے نمائندے نہیں ہیں، ایک جانب جدت پسند خواتین ہیں تو دوسری جانب اپنی خیالی جنت کا مکیں مذہبی طبقہ، دونوں ہی معاشرے کے مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا زمینی حقائق سے کوئی خاص ربط موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں دونوں طبقات کے درمیان بعد مشرقین نظر آتا ہے، ایک طبقہ ایسے نعرے لگاتا ہے، جن کی خواتین کو قطعا کوئی حاجت نہیں، تو دوسرا طبقہ رد عمل میں اسلام کے حوالے دے دے کر یہ جتانا چاہتا ہے کہ جیسے پاکستان میں عورت کو کسی مسائل کا سامنا ہی نہیں ہے، اور مملکت خداداد پاکستان میں ایسی شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں، جن کی ملکیت خواتین کے پاس ہے۔
اس طرح دو انتہائوں کے درمیان پاکستان کی مظلوم اورمجبورعورت ایک بار پھر بری طرح نظر انداز ہوجاتی ہے۔ اور دور کھڑی
!سیاسی اور سماجی گدھوں کو اپنا مردہ جسم نوچتا ہوا دیکھتی ہیں اور اپنی بے بسی پر آنسو بہاتی ہے
دوسری طرف پاکستانی معاشرے کے حقائق یہ ہیں کہ یہاں پسند کی شادی کرنے پر ہر دوسرے روز کوئی نہ عورت قتل ہوتی ہے، عدالتیں جائیداد کے حصول کیلئے خواتین کی درخواستوں سے بھری پڑی ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد میں خواتین معاشرتی دبائو کے تحت جائیداد سے از خود دستبردار ہو جاتی ہیں، جہیز نہ لانے یا کم لانے پر آئے روز عورت تشدد کا شکار بنتی ہے، ونی، اور کاروکاری کی رسمیں الگ سے موجود ہیں، کھانا درست نہ پکانے پر تشدد الگ سے سہتی ہیں، اگر کوئی خاتون مجبوری میں بھی معاش کے حصول کیلئے گھر سے نکلے تو اس کا کردار مشتبہ قرار دے دیا جاتا ہے.
لوگ کسی بیوہ یا مطلقہ کو شادی کے ذریعے تحفظ دینے کی بجائے حوس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، بیٹا پیدا نہ کرنے پر طلاق عام ہے، مسلسل بیٹیوں کی پیدائش پر سسسرالی رشتے داروں کے طعن و تشنیع کا مقابلہ ایسی خواتین کو نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے۔ لیکن مذہبی طبقہ ہے کہ سب اچھا ہے کا راگ الاپتا رہتا ہے۔
جہاں معاشرے میں خواتین کی حالت زار ایسی ہو، وہاں مذہبی طبقے کا یہ کہنا کہ میرا جسم اللہ کی مرضی کچھ جچتا نہیں، بلکہ اس نعرے سے اسلام سے محبت اور خواتین سے ہمدردی کی بجائے کسی مناظرانہ اسلوب کی بو آتی ہے، اور اس نعرے کے تلے عورت پر ہونے والے مظالم کو ایک دبیز قالین تلے دبانے کی لاشعوری کوشش نظر آتی ہے، جبکہ اصول یہ ہے کہ جب تک گندگی کو صاف نہ کیا جائے، تب تک بدبو آتی رہے گی چاہے گندگی کے اوپر آپ کتنے ہی خوشنما قالینیں ڈال دیں. لیکن دیکھا جائے تو مذہبی طبقے کی بھی مجبوری ہے، سینکڑوں سالوں سے مسلسل تیسرے درجے کے مذہبی مسائل میں مناظرے کرتے رہنے کی عادت سے اب مناظرانہ اسلوب ، مذہبی طبقے کی نفسیات پر حاوی ہوچکا ہے، اس لئے مناظرانہ اسلوب کے بجائے کسی سنجیدہ لائحہ عمل کی توقع مذہبی طبقے سے لگانا بے سود ہی ثابت ہوگا۔
بصورت دیگر پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا جائے تو آپﷺ خواتین کے حقوق کے علمبردار نظر آتے ہیں، آپﷺ نے خواتین کو پسند کی شادی کا حق دیا، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم کا قلع قمع کیا، عربوں کے قانون طلاق میں عورت کے حق کا تحفظ کیا، غلامی کے خاتمے کی بنیادیں رکھیں، بیٹی کا باپ ہونے کو فخر کی علامت بنانے سمیت متعدد ایسے اقدامات کئے کہ جن کےنتیجے میں عربوں کے اندر خواتین کو ایک ممتاز مقام حاصل ہوا۔
جب ہم نبی کریم ﷺ کی جانشینی کے دعویدار طبقے کا طرز عمل دیکھتے ہیں، تو ہمیں ان کا طرز عمل سیرت نبویﷺ سے کوسوں دور نظر آتا ہے. مخصوص تاریخی پس منظر کے سبب ان کی نفسیات پر مناظرانہ اسلوب چھا چکا ہے، جس کا واضح ثبوت عورت مارچ سے مشتعل ہو کر مذہبی طبقے کی جانب سے نکالی گئی ریلیوں سے بخوبی حاصل ہوتا ہے، حالانکہ اسی مارچ کے مہینے میں دو ایسے دل دہلادینے والے واقعات سامنے آچکے ہیں کہ جن سے کسی بھی سلیم الفطرت انسان کی روح تک کانپ اٹھے، جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں پسند کی شادی کرنے پر بھائیوں نے اپنی 21 سالہ نوجوان بہن کو اس کے 40 دن کے نومولود بچے سمیت زندہ دفن کرکے مار ڈالا، دوسری طرف جیکب آباد میں شوہر نے بد ترین جسمانی تشدد کے بعد بیوی کے سر کے بال بھی مونڈ دیئے، یہ صرف رواں مہینے کے دو واقعات ہیں، پورے سال کے ڈھونڈو، تو سینکڑوں ملے گے، لیکن تلاش بسیار کے باجود مذہبی طبقے کے بینروں میں ان مظلوم، مجبور خواتین کے حق میں کوئی نعرہ نظر نہیں آیا، البتہ
دوسری طرف اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والی چند سوں خواتین ، جو ہر طرح کی عیش و عشرت کی حامل ہیں، اور مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، نے عورت مارچ کے نام پر ایسے نعروں کو فروغ دیا ہے کہ اگر ان کی واضح تفہیم ممکن ہو سکے تو شاید ان سے اتفاق بھی ممکن ہو، لیکن جس انداز میں ان نعروں کو پیش کیا گیا ہے ، اس کے بعد ایک غیر جانبدار انسان جتنی بھی مثبت تفہیم کرنا چاہے، خود کو ان نعروں سے ہم آہنگ نہیں کر پاتا ہے، اس طرح یہ لڑائی معاشرے کے دو ایسے طبقوں کی لڑائی بن کر سامنے آتی ہے، جن کی دنیا مسائل کا شکار خواتین کی دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہے، اور معاشرے کی مجبور و مقہور اور مظلوم خواتین انگشت بدنداں کھڑی ہوئی گدھوں کو اپنی سوختہ لاشیں نوچتی دیکھ رہی ہیں مناظرانہ اسلوب کے نعروں سے تمام ریلیاں بھری پڑی تھیں۔