سُپریم کورٹ کے لیے نکلتے ہوئے خیال نہیں رہا کہ آج کل ریڈ زون میں داخلہ کے لیے صرف ایک ہی راستہ کُھلا ہے اور وہاں بھی رش ہوتا ہے۔ بہرحال چیک پوسٹ پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو سُپریم کورٹ جانے کی گزارش کی اور ایک بڑی مرسڈیز گاڑی کے ساتھ ساتھ گاڑی بھگاتا سُپریم کورٹ پہنچا تو کھڑکی توڑ رش کے آثار نظر آئے کیونکہ پارکنگ میں کوئی جگہ نہیں تھی۔
ایک جگہ پر بمشکل گاڑی کی کھڑی کی تو ٹریفک پولیس اہلکار نے ہدایت کی کہ یہاں راستہ نہ بند ہو جائے۔ ٹریفک پولیس اہلکار سے گزارش کی کہ بھائی یہاں سے ٹرک کے علاوہ سب گزر جائے گا، راستہ بلاک نہیں ہو رہا۔ ٹریفک پولیس اہلکار نے ایک نظر گاڑی کے ساتھ گزرنے والے راستے پر ڈالی پر پھر مُسکرا کر مُجھے جانے دیا۔
باقاعدہ بھاگتا ہوا پارکنگ سے سُپریم کورٹ کے احاطہ اور پھر عمارت کے اندر داخل ہوا اور سیدھا چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے مخصوص کورٹ روم نمبر ایک چلا گیا۔
کورٹ روم نمبر ون میں پھولے ہوئے سانس کے داخل ہوا تو ایک بج کر دو منٹ ہو رہے تھے اور کمرہِ عدالت جِس کو کمرہ سے زیادہ ہال کہنا مُناسب ہوگا حکومتی وزرا، اپوزیشن کے سیاستدانوں، وُکلا اور صحافیوں سے کورٹ روم بھرا ہوا تھا اور کھڑے ہونے کی جگہ بھی کم پڑ رہی تھی۔
بینچ کے دائیں ہاتھ موجود صحافیوں میں جا کر کھڑا ہوا اور سماعت کے لیے آنے والوں پر نظر دوڑائی تو کمرہِ عدالت میں بہت دلچسپ مناظر تھے۔ حکومتی اور اپوزیشن ممبرز کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پڑ گیا تھا۔
سُپریم کورٹ کے ہال میں تین تین کُرسیوں کو ساتھ جوڑ کر قطاریں بنائی گئی ہیں اور اِس وجہ سے سابق چیئرین سینیٹ نئیر بُخاری کے ساتھ سینیٹر شیری رحمان اور شیری رحمان کے ساتھ اُن کے سابق کولیگ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قُریشی بیٹھے تھے لیکن دونوں ایک دوسرے سے بے نیاز نظر آ رہے تھے جبکہ اِن کی پچھلی نشستوں پر حال ہی میں پی ٹی آئی سے پیپلز پارٹی واپس لوٹنے والے ندیم افضل چن وزیرِ خارجہ شاہ محمود قُریشی کی عقبی نشست پر جبکہ وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز پیپلزپارٹی کے نئیر بُخاری سے پچھلی نشست پر براجمان تھے لیکن پی ٹی آئی کے سینیٹر اور مرحوم شاعر احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز اور پیپلز پارٹی کے رہنما نئیر بُخاری آپس میں سرگوشیاں بھی کر رہے تھے۔
جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مُرتضی سے پچھلی نشست پر وفاقی وزیر برائے پلاننگ اسد عُمر بیٹھے تھے۔ اِسی طرح وزیرِ خارجہ شاہ محمود قُریشی کی نشست سے تھوڑے فاصلے پر پی ٹی آئی کی ایم این اے ملیکا بُخاری ن لیگ کے ایم این اے شانواز رانجھا کے ساتھ بیٹھی تھیں۔
ہال میں ن لیگ رہنما احسن اقبال، خُرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ بھی موجود تھے جبکہ اے این پی کے رہنما میاں افتخار اور پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کُنڈی بھی کمرہِ عدالت میں موجود تھے۔
سب سے دلچسپ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری اور اُن کے وکیل بھائی فیصل چوہدری کی نشست تھی۔ وہ حکومتی قانونی ٹیم کے لیے مخصوص نشستوں کی بجائے اپوزیشن کے وُکلا کے لیے مخصوص نشستوں پر اپوزیشن کے وُکلا فارق نائیک، مخدوم علی خان اور سینیٹر رضا ربانی کے ساتھ بیٹھے تھے۔
ایک بج کر پانچ منٹ پر دربانوں نے آواز لگائی کورٹ آ گئی ہے تو پانچوں معزز جج صاحبان کمرہ عدالت میں آگئے۔ چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے مرکزی نشست سنبھال لی جبکہ اُن کے دائیں ہاتھ اُنکے دوست جسٹس اعجاز الاحسن اور اُن سے اگلی نشست پر جسٹس مُنیب اختر جبکہ چیف جسٹس کے بائیں ہاتھ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور اُن کے ساتھ جسٹس جمال خان مندوخیل موجود تھے۔
سندھ ہائیکورٹ سے سنیارٹی لِسٹ میں چوتھے نمبر سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا انتخاب بن کر سُپریم کورٹ پہنچنے والے پنجابی جسٹس مُنیب اختر کو اگر لاہور ہائیکورٹ سے سُپریم کورٹ ترقی پانے والے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کے ساتھ شُمار کیا جائے تو بینچ میں تین پنجابی ججز کو فیصلہ کُن اکثریت حاصل ہے جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی صورت میں بالترتیب خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ایک ایک جج اقلیت میں ہے۔
معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے کمرہِ عدالت میں غیر معمولی رش کی وجہ سے سماعت کا آغاز کرنے سے قبل ریمارکس دئیے کہ کمرہِ عدالت میں صرف سماعت کو سُننے کے لیے موجود وُکلا اور سیاسی جماعتوں کے کارکن برائے مہربانی سُپریم کورٹ کی راہداری میں چلے جائیں، وہاں لگے سپیکرز پر وہ سماعت سُن سکتے ہیں، ورنہ وہ یہ حُکم دیں گے کہ کمرہِ عدالت میں صرف دلائل دینے والے وُکلا رہنے دیے جائیں اور باقی سب کو نکال دیا جائے۔
معزز چیف جسٹس کے حُکم کے باوجود بہت کم تعداد میں لوگ کمرہِ عدالت سے باہر گئے۔ معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے سب سے پہلے اسلام آباد میں سندھ ہائوس پر حملہ اور سُپریم کورٹ بار کی درخواستوں کو ٹیک اپ کیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے تمام صوبائی چیف سیکریٹریز کو عدالتی حُکم سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے صوبائی نمائندوں سے رابطے کرکے ریلیوں کا شیڈول طے کر لیں جبکہ اسلام آباد میں حکمران تحریکِ انصاف اور جے یو آئی ف نے انتظامیہ کو جلسے کی درخواست دی تھی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو پریڈ گرائونڈ میں اجازت مل گئی ہے لیکن مسئلہ جے یو آئی ف کی درخواست کا ہے۔ چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی ف والے سری نگر ہائی وے پر جلسے کے بعد دھرنا کی اجازت بھی مانگ رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ کیا وہ سڑک پر دھرنا دینا چاہ رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل کی طرف سے نفی میں جواب ملنے پر جے یو آئی ف کے وکیل کامران مُرتضیٰ کو روسٹرم پر طلب کرکے معزز چیف جسٹس نے جلسے اور دھرنا پر پوچھا تو کامران مُرتضیٰ نے جواب دیا کہ ہمارا دھرنا مُکمل پُرامن اور قانون و آئین کے دائرہ میں ہوگا۔
چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُسکرا کر ریمارکس دئیے کہ ہمیں آپ (جے یو آئی ف) سے ڈر بھی تو بہت لگتا ہے۔ کمرہِ عدالت میں قہقہ لگا اور اِس قہقے کی گونج میں سابق صدر سُپریم کورٹ بار کامران مُرتضیٰ نے جواب دیا کہ سر ہم نے اسلام آباد میں اِس سے پہلے بھی متعدد بار ریلی نکالی ہے اور آج تک ایک گملا بھی نہیں توڑا۔
اِس کے بعد ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے ویڈیو لنک پر عدالت کو سندھ ہائوس پر حملے کے متعلق درج ایف آئی آر اور آئی جی اسلام آباد سے ہونے والی مُلاقات میں ہونے والی پیشرفت کا بتایا جِس کے بعد عدالت نے معاملہ نمٹا دیا اور معزز چیف جسٹس نے مُختصر حُکمنامہ لکھوایا کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے آگاہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت کے نے اپنا موقف آئی جی پولیس اسلام آباد کو ریکارڈ کروا دیا ہے جو پولیس نے ایف آئی آر میں شامل کرنے اور اُس پر قانونی کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے جے یو آئی ف کو بھی آرڈر میں پُرامن رہنے کی یقین دہانی پر ریلی اور دھرنا کی اجازت دے دی۔
اِس دوران سابق چئیرمین سینیٹ، سینیٹر رضا رباني روسٹرم پر آئے اور انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اُن کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا دیا ہے۔ معزز چیف جسٹس نے سینیٹر رضا ربانی کو مُخاطب کرکے کہا کہ آپ (رضا ربانی) کو سُننا ہمیشہ باعثِ مُسرت رہا ہے اور وہ اِس بار بھی اُن (رضا ربانی) کے تجربہ سے ضرور فائدہ اُٹھائیں گے۔
اِس کے بعد صدارتی ریفرنس کی سماعت کا آغاز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس سوال سے کیا کہ کسی کو صدارتی ریفرنس یا بینچ پر اعتراض تو نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پچھلی سماعت پر یہاں سب سیاسی جماعتوں کے نمائندہ موجود تھے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اِس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کو سُننے والے بینچ پر سوال اُٹھانے کا وقت گزر چُکا ہے جِس کے بعد سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے ایک بہت سنگین تنازع موجود ہے۔ اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی اور باغی اراکین کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے اراکین نے سندھ ہائوس میں دوسری سیاسی جماعت کے پاس پناہ لی ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ یہ اراکین میڈیا پر آکر دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد میں اپنی جماعت کو ووٹ نہیں کریں گے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین میں آرٹیکل 63-A ایسے ہی مُنحرف اراکین اور کرپٹ پریکٹس کی روک تھام کے لیے موجود ہے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63-A رُکن اسمبلی کو پارٹی ہدایات کا پابند بناتا ہے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ فلور کراسنگ کی وجہ سے ہی پاکستان میں جمہوریت مظبوط نہیں ہوسکی۔ پانچ رُکنی لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو حُکم دیا کہ وہ پہلے آرٹیکل 63-A پڑھ کر سُنائیں کہ اُس میں لکھا کیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 63-A پڑھنا شروع کردیا۔
جب اٹارنی جنرل آرٹیکل 63-A پڑھ رہے تھے تو معزز چیف جسٹس نوٹس لے رہے تھے۔ معزز جسٹس اعجازالاحسن آئین کی سبز کتاب مُنہ کے سامنے رکھ کر ساتھ ساتھ پڑھ رہے تھے۔ جسٹس مُنیب اختر صرف سُن رہے تھے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل سر جُھکا کر پڑھ رہے تھے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل بھی اٹارنی جنرل پر نظریں جمائے صرف سُن رہے تھے۔
اٹارنی جنرل جیسے ہی آرٹیکل 63-A پڑھ کر رُکے تو بلوچستان سے سُپریم کورٹ پہنچنے والے جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63-A میں نااہلی کا کہاں لِکھا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63-A کو آرٹیکل 62 کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا۔ معزز جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کی دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے بظاہر ساتھی جج جسٹس جمال خان مندوخیل کو سُنایا کہ آرٹیکل 63-A کو الگ سے نہیں پڑھا جا سکتا یہ رُکن اسمبلی کی نااہلی کے لیے سکیم کا حصہ ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عام شہری کا ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 19 اور 51 میں درج ہے۔ معزز جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا کہ آپ بتانا چاہ رہے ہیں کہ عام شہری اور رُکن پارلیمنٹ کے ووٹ میں فرق ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے مُسرت سے جواب دیا کہ جی بالکل میں یہی کہنے والا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹیرین کے ووٹ کرنے پر کُچھ پابندیاں اور ذمہٰ داریاں ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام کی کامیابی پارلیمانی پارٹیوں میں ڈسپلن سے مشروط ہے اور اِس لیے ہی اراکین کو مُنحرف ہونے سے روکنے کے لیے آرٹیکل 63-A آئین میں شامل کیا گیا۔
اِس دوران دو بجے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری اٹھ کر کمرہ عدالت سے نکلنے لگے تو راستے میں جُھک کر ن لیگی ایم این اے رانا ثنا اللہ سے کُچھ سرگوشیاں کرنے لگے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ ایک ووٹ کی تنہا کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور وہ تب ہی موثر ہوتا ہے جب پارٹی کے ساتھ اجتماعی طور پر استعمال ہو۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی ہی دراصل لوگوں کے مینڈیٹ کی نمائندہ ہوتی ہے اور لوگوں کی خواہشات کے مُطابق قانون سازی کرتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال پوچھا کہ ممبر سیاسی جماعت کا ہوتا ہے یا پارلیمنٹ کا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عام شہری اور ممبر اسمبلی میں فرق ہوگا ووٹ کرتے وقت۔ معزز جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ لیکن ووٹ کرنے میں تو دونوں آزاد ہوں گے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جُھلا کر جواب دیا سر یہی تو سارا کیس ہے۔ اِس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ایک بار پھر اٹارنی جنرل کے دلائل میں اپنے ریمارکس شامل کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63-A کا مطلب ہے کہ سیاسی اور پارلیمانی استحکام برقرار رہے۔
معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 63-A کے نتائج یہ ہوں گے کہ اگر آپ پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ کریں گے تو آپ کو اگلی دفعہ اُس پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملے گا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر اِس کے علاوہ بھی نتائج ہوں گے۔
جسٹس مُنیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اگر پارٹی ممبر اپنی پارٹی لائن سے انحراف کرنے لگیں تو پارلیمانی نظام ہی گر جائے گا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ کیا سیاسی جماعت میں کوئی میکنزم ہوتا ہے جہاں سے ہدایات آتی ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں پارلیمانی کمیٹی ہوتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا حوالہ دیا کہ جب فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کروائے تو اُن کا اپنے ہاتھ سے لگایا ہوا وزیرِ اعظم جونیجو بھی ناکام ہوگیا تھا۔
بینچ کے سربراہ نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی رُکنِ اسمبلی کسی اصول کی بُنیاد پر پارٹی لائن سے انحراف کرنا چاہے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اصولوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ نتائج میں جو قیمت ادا کرنی پڑے گی اُسکی مُدت کا تعین ابھی کرنا باقی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی رُکنِ اسمبلی دیکھے کہ جہاز ڈوب رہا ہے تو وہ چھلانگ نہیں لگا سکتا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر یہاں وہ ایک جہاز سے چھلانگ نہیں لگا رہے بلکہ دوسرے جہاز میں سوار ہو رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ ایک سیاسی جماعت سے تعلق قائم کرچُکے ہیں تو اُس پر قائم رہیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اگر میں کسی سے تعلق میں ہوں گا تو وہ رشتہ نہیں توڑ کر کسی دوسرے کے ساتھ بھاگوں گا نہیں۔ جسٹس مُنیب اختر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63-A دراصل پارٹیوں میں ڈسپلن برقرار رکھنے کے لیے ہے ورنہ تو پورا نظام اور ادارے تباہ ہو جائیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال پوچھا کہ کیا آپ پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے تیزی سے جواب دیا لیکن ہم کسی کو لوٹا بھی نہیں بننے دینا چاہتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اگر ایک پارٹی میں بات کرنے کی آزادی نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر لوگ سندھ ہائوس میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کے بارے میں باتیں کر رہے اِس سے بڑھ کر آزادی کیا ہوگی؟ جسٹس مُنیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمانی پارٹی کا اجتماعی ووٹ شخصی ووٹ کو روکتا ہے جِس سے پارلیمانی نظام مظبوط ہوتا ہے۔
جسٹس مُنیب اختر نے سوال پوچھا کہ پارلیمانی پارٹی سے اگر کوئی انحراف کرتا ہے تو کیا اُس کو پارٹی سے نکالنا ہوگا یا اُس کے دانت بھی نکالنے ہوں گے یعنی نااہل کرنا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ووٹ بھی شُمار نہ ہو اور نااہلی بھی ہو۔ معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس موقع پر اہم ترین ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رُکنِ اسمبلی کا ووٹ شُمار نہ کرنا توہین ہوگا، اِس لیے ووٹ تو شُمار ہوگا لیکن اُس کے نتائج کیا ہوں گے یہ طے ہونا باقی ہے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے آبزرویشن دی کہ آرٹیکل 63-A کے ذریعے آپ اپنے ممبر پر دبائو ڈال رہے کہ وہ پارٹی لائن کے مُطابق ووٹ دے۔ معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63-A میں پارٹی کو انحراف کرنے والے رُکن کے خلاف کارروائی کے لیے جو آپشن حاصل ہے، اِس کی مزید وضاحت پارلیمینٹ قانون سازی کے ذریعے بھی کر سکتی ہے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 63-A کا مطلب مُنحرف رُکن کو نشست سے محروم کرنا ہے نااہلی نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ووٹ ایک ایک پارٹی کی امانت ہوتی ہے آپ اُس میں خیانت کرکے ایماندار نہیں رہتے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ رُکن اسمبلی صرف پارٹی کے ووٹ پر جیت کر نہیں آتے اُن کا اپنا ذاتی ووٹ بینک بھی ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اِس موقع پر اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ تحریک عدم اعتماد والا آرٹیکل 95 پڑھیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر ابھی پڑھا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے مُسکرا کر کہا بار بار پڑھیں سب کو سمجھ آئے گا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر پھر آرٹیکل 63-A بھی بار بار پڑھ لیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی رُکنِ اسمبلی مُنحرف ہونے کی وجہ سے نااہل ہوتا ہے اور وہ سُپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتا ہے تو ہم یہ وجوہات نہیں جانیں گے کہ اُس کے پاس مُنحرف ہونے کی وجوہات جائز تھیں یا نہیں بلکہ صرف یہ دیکھیں گے کہ اُس کو نااہل کرتے ہوئے آرٹیکل 63-A میں درج طریقہ کار پر درست طریقے سے عمل ہوا یا نہیں کیونکہ آئین میں مُنحرف ہونے پر کارروائی کا درج ہے وہاں وجوہات کو نہیں دیکھا گیا۔
اِس موقع پر گھڑی پر تین بج چُکے تھے معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے جمعہ کے روز چکوال کے قاضی محمدامین احمدکی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ریفرنس کی سماعت سوموار تک مُلتوی کرنے کا کہا تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کو جلد نمٹانے کی خاطر جمعہ کو بھی سماعت کی استدعا کی جو عدالت نے قبول کرکے جمعہ کے روز ایک بجکر تیس منٹ تک سماعت مُلتوی کردی۔