کوویڈ ۔ 19 اور مستقبل کی " شہری منصوبہ بندی "

06:00 AM, 24 May, 2020

محمد توحید
وبائی امراض نے ہمیشہ شہروں کو نئی شکل دی ہے-  شہروں کی منصوبہ بندی  میں   مروجہ ثقافتی اور تکنیکی رجحانات  کے ساتھ ساتھ   بڑے بحرانوں  کا بھی کردار رہا ہے۔چاہے 430 قبل مسیح  میں يونان کے شہر ایتھن سے پھیلنے والی طاعون کی بیماری  ہو جس سے  ایتھنز کے معاشرے پر سنگین اثرات مرتب ہوئےاور شہر کے قوانین اور شناخت میں گہری تبدیلیاں آئیں یا افریقہ میں ایبولا کی وبا کا  سلسلہ ہو  جس نے آج کے شہروں کے بڑھتے باہمی روابط کو واضح کیا- کوئی شہر ایسا نہیں جس پر ان بحرانوں نے   اپنا نشان نہ چھوڑاہو۔19 ویں صدی میں ہیضے کی وبا نے شہری صحت  و صفائی  اور نکاسی آب کے نئےاور  جدید نظام کو متعارف کرایا۔ جسے اس وقت کا  قابل ذکر کارنامہ قرار دیا گیا جو گندے پانی کو محفوظ طریقے سے نیچے جانے اور پینےکے پانی  کی فراہمی سے دور رکھنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا ۔

عالمی سطح پر کوویڈ ۔19 وبائی امرض کے اثرات کو  سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے  اور  دنیا کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے-  معاشی نظام درہم برہم ہے لوگ  گھروں میں قیدہیں اور  شہروں کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے کے طریقوں میں یکسر تبدیلیاں پیدا ہو رہی  ہیں اور  واضح نظر آرہا ہے کہ یہ بحران شہروں پر دیر پا اثرات چھوڑے گا ۔

پاکستان کے تناظر میں کوویڈ -19  شہری منصوبہ سازوں ، بیوروکریٹس اور پالیسی سازوں کو ، پاکستان میں  بنیادی شہری خدمات تک انتہائی غیر مساوی رسائی کو سمجھنے اور  خاطر خواہ اقدامات کرنے   کے لئے فوری بیداری کی دعوت دیتا ہے-  حکمرانوں ، حکومتی اداروں اور افسران شاہی کا  احتساب  نہ کئے جانے کے عمل  نے  کئی دہائیوں تک منصوبہ بندی کی جامع کوششوں میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ شہروں میں رہائش کی کمی کے سبب وجود میں آنے والی غیر رسمی بستیوں کے رہائشی اور انکے مسائل اب پالیسی سازوں سےپوشیدہ نہیں - ان غیر رسمی بستیوں کے رہائشی  شہرکو چلانے والے ہیں اور شہر کی معیشت  کا ایک اہم حصہ ہیں  مگران کی غربت کے سبب انہیں  انتہائی کمزور افراد گردانا جاتاہے جبکہ وہ بھی اتنی ہی  توجہ کے مستحق ہیں جتنا کہ دوسرے شہری!

پاکستان میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کوویڈ-19 وبائی امراض نے  شہری زندگی کو نمایاں طور پر تبدیل کردیا ہے۔ ادھر ادھر جانے والے لوگوں کی تعداد غیرمعمولی طور پر کم سطح پر آگئی ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو اس کےمتحمل ہوسکتے ہیں  گھر سے کام کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ شہری مراکز بند ہونے کے سبب  کام کرنے والے لاکھوں چھوٹے کاروبار اور کارکنوں کا مستقبل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

ان تبدیلیوں نے شہری  منصوبہ بندی کےماہرین کے درمیان  اس بحث کو جنم دیا  کہ شہر کیسے بنائیں جائیں؟۔۔ کہ وہ  موجودہ اور مستقبل کے بحرانوں کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکیں ۔ شہری منصوبہ سازوں  کے مطابق آنے والے سالوں میں شہری  منصوبہ بندی درج ذیل انداز میں  متاثر ہوگی:

محفوظ اور صاف پانی کی مستقل فراہمی:

محفوظ اور صاف  پانی تک رسائی پاکستان  کے 34 ملین شہریوں کے لیےبراہ راست  ایک خواب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ غیر رسمی بستیوں یا کچی آبادیوں میں رہتے ہیں- جہاں  بار بار ہاتھ  دھونا ایک عیاشی سے کم نہیں-  کویڈ-19  نے ثابت کیا کہ ہر شہری تک محفوظ اور صاف  پانی تک رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہوگا کیونکہ اگر ایک شہری بھی اس طرح کی وبا کا شکار ہوتا ہے تو وو  پورے شہر کہ لپیٹ میں لے سکتا ہے –

محفوظ اور صاف  پانی تک رسائی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے -وہ تمام ادارے جو پانی کی فراہمی کے ذمے دار ہیں ان کا آپس میں  رابطہ ہو  اور  ہر شہر کی طلب و رسد کو سامنے رکھتے ہوئے  آبادی کے تناسب سے پانی کا کوٹہ مقرر کیا جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جا ئے کہ  ہر شہر کی ہر آبادی کو تناسب کے لحاظ سے   پانی کی یکساں مقدار میسر آسکےساتھ ساتھ پانی کے ضیاع کے حوالے سے  سخت قسم کے قوانین بنانے جائیں-

بنیادی خدمات کی سہولیات  تک رسائی پر توجہ

پاکستان کے تمام  شہروں میں بہت سارے لوگ بنیادی خدمات  کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہیں-  صاف  پانی ، سستی  رہائش ، صحت کی دیکھ بھال ، بہتر ذرائع نقل وحمل  اور نکاسی آب جیسی ضروری خدمات تک رسائی کا فقدان ہے ، جس نے بہت سے شہروں میں کوویڈ-19کا موثر انداز میں جواب دینے کے چیلنج کو اور بڑھادیا ہے۔ بنیادی خدمات کی سہولیات  تک ناقص رسائی سے  اکثر جگہوں پر لاک ڈاؤن آرڈرز کی تعمیل ناممکن ہوجاتی ہے۔

بنیادی خدمات کی سہولیات  تک رسائی پر توجہ مستقبل کے شہروں کی ترجیح ہونی چاہئے۔اس کے لیے مختصر دورانیے اور    طویل دورانیے کی علیحدو علیحدہ منصوبہ بندی  کی  ضرورت ہے- مختصر دورانیے کی منصوبہ بندی میں  شہروں میں ان آبادیوں پر توجہ مرکوز کی جائے جہاں کے رہائشیوں کی بنیادی خدمات کی سہولیات  تک رسائی نہیں ہے اور  طویل دورانیے کی منصوبہ بندی   میں شہروں کی سطح پر  انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈکرنے اور دیکھ بھال کے نظام کی بہتری کو شامل کیا جائے-

سستی رہائش اور کم گنجان آبادیاں

شہروں میں مناسب سستی رہائش کی فراہمی کے بغیر آبادی کی گنجانیت  کو کم کرنا ممکن نہیں ۔ مستقبل میں شہروں میں سستی رہائش اور عوامی جگہ تک رسائی کو بہتر بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔تاکہ لوگ غیر رسمی بستیوں میں رہنے پر مجبور نہ ہوں ساتھ ہی موجودہ غیر رسمی بستیوں کے لئے بہتر انداز میں آبادکاری کی ضرورت ہوگی-اس وقت ماہرین گنجانیت کو کم کرنے کے متعلق سوچ  رہے ہیں – مستقبل میں  بڑے شہروں میں آبادیوں کی  منصوبہ بندی اس انداز میں کی جائیگی کہ گنجانیت کم سےکم  ہو-

غیر رسمی بستیوں کے متعلق اعداد وشمار

یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان میں غیر رسمی بستیوں کے متعلق اعداد و شمار کو بنیادی طور پر  قومی سطح  پر جمع نہیں  کیا جاتا - جبکہ کسی بھی  وبائی مرض  کی صورت میں صاف پانی کی فراہمی، بنیادی خدمات  و صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کے بغیر  گنجانیت سے بھرپور یہ غیر رسمی بستیاں  اور ان میں رہنے  پر مجبور شہر کے غریب ترین باشندے  ان امراض کا سب سے پہلا نشانہ ہوتے ہیں ۔  کوویڈ-19 کے بعد اب ماہرین  کے توجہ دلانے پر حکومتیں سنجیدگی سے ان غیر رسمی بستیوں کے متعلق اعدادوشمار جمع کرنے پر غور کر رہی ہیں- یہ اعدادوشمار یونین کمیٹی کی سطح پر ہوں  تو مستقبل کے خطرات سے   بہتر انداز میں نمٹا جا سکتا ہے-

پارک اور عوامی مقامات

شہر کی منصوبہ بندی  میں ایک یہ معاملہ سامنے آیا کہ کھلی جگہیں یعنی پارک اور عوامی مقامات کوویڈ-19 جیسے وبائی مرض  میں سماجی دوری اور مناسب فاصلےکے اعتبار سے   کارآمد نہیں ہیں- مستقبل میں شہروں کے بارے میں سوچنےاور اس کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے  کھلی جگہوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوگا کیونکہ شہر میں  بڑی کھلی جگہیں  ہنگامی خدمات میں مدد دے سکتی ہیں۔

شہر کی علاقائی منصوبہ بندی میں بہتری

شہر کی علاقائی منصوبہ بندی میں اضافے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے  جیسے کہ شہر کراچی کی بات کریں تو اس بحران کے اثرات  نے صرف  شہر کو متاثر نہیں کیا بلکہ مضافات اور  آس پاس کے علاقوں میں بھی زبردست معاشی اثرات سامنے آرہے ہیں ۔ہمیں ان حالات سے   سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی بہتر اور مربوط  منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے- صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات میں بہتری لائے بغیر ہم آنے والے حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے-

کام کے قریب رہائش کا تصور

کوویڈ-19 نے واضح کیا کہ کام کے قریب رہائش کے تصور میں تبدیلی ممکن ہے-اس وقت پوری دنیا میں کمپنیاں ایسے سسٹم قائم کر رہی ہیں جس سے عملے کو گھر سے کام کرنے کا اہل بنائے اور مزید لوگ اس کے عادی ہو رہے ہیں اورپاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں یہ طویل المیعاد نہ بھی ہوا تو  ترقی یافتہ ممالک میں  یہ  عادتیں  برقرار رہنے کا امکان ہےیعنی  وہاں کسی کا اپنے کام کے قریب رہائش کا تصورمعنی کھو بیٹھے گا-

 شہر کی سطح  سےمقامی سطح  تک کے اعداد و شمار                 

پاکستان میں اعداد و شمار کو بنیادی طور پر  قومی سطح پر جمع کیا جاتا ہے جبکہ کسی بھی وبائی بیماری یا وبائی مرض سے بچنے کے بارے میں بہت سارے فیصلے مقامی سطح پر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں اعدادوشمار کی عدم دستیابی ایک نئے بحران کو جنم دیتی ہے - قومی سطح پر اعداد و شمارکو  جمع کئے جانے کو ساتھ ساتھ مقامی سطح پر اعداد و شمارکو جمع کرنے   اور  باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی-یہ کام شہری حکومتیں بہتر انداز میں سر انجام دے سکتی ہیں- شہری حکومتوں  کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بہتر اعدادوشمار فراہم کے ساتھ فیصلہ سازی میں اپنا  کردار ادا  کرسکیں۔ساتھ ساتھ ان اعدادوشمار کا اشتراک بھی ضروری ہے  اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوگی کہ ان اعدادوشمار کی رسائی کمیونٹی گروپس ، یونیورسٹیوں  اور متعلقہ شہریوں تک  ہو تاکہ وہ  سب باہم  مل کر آنے والے چیلنجوں کو سمجھنے اور بہتر طریقے سے نمٹنے کے لئے جامع  حکمت عملی ترتیب دے سکیں-

ماضی کے وبائی امراض کی طرح کوویڈ-19 کا ہمارے شہری مستقبل پر سخت اثر پڑے گا لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اس شہری بحران سے کیا سبق سیکھتے ہیں۔
مزیدخبریں