وہ کہتی ہیں کہ ہم مسیح برداری سے تعلق رکھتے ہیں تو اس میں کیا گناہ ہے؟ کیا ہم صرف اس وجہ سے اپنے پیاروں کو بھی اس جگہ نہیں دفنا سکتے جہاں ہم رہ رہے ہیں۔ ہمیں ان کی میتوں کو میلوں دور لے جانا پڑتا ہے ۔ہم بھی تو باقی لوگوں کی طرح انسان ہیں۔ کیا ہوا اگر ہم مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ کس چیز کی سزا ہے کہ یہاں قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنے پیاروں کو اتنا دور لے جانا پڑ رہا ہے۔
فائزہ عظیم مزید بتاتی ہے کہ اگر یہاں قبرستان ہوتا، تو شائد آج میری امی کی قبر یہاں پہ ہوتی۔ آج میں دسویں جماعت میں پڑھ رہی ہوں، چار سال ہوگئے ہیں کہ میں کبھی اپنی امی کی قبر پہ نہیں جا سکی۔ میں جانا چا ہوں بھی تو نہیں جا سکتی۔ کیونکہ کوہاٹ بہت دور ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں،ہم غریب ہیں۔ ہمارا اتنا خرچہ ہوجاتا ہے کہ جس کے سامنے ماں کے لئے جذبات چھوٹے لگنے لگتے ہیں۔ فائزہ کہتی ہیں کہ میری حکومت سے صرف ایک ہی درخواست ہے کہ ہمارے لئے یہاں پہ قبرستان کے لئے زمین خرید کر ہمارے حوالے کریں، تاکہ ہم رشتہ داروں کو یہاں دفنا سکیں اور ان کی قبر پہ جا سکیں۔
سوات کی کرسچن کمیونٹی کے صدر اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
سوات میں کرسچن کمیونٹی کے صدرعظیم مسیح کہتا ہے کہ ہم یہاں 1972ء سے رہ رہے ہیں۔ ہمارا یہ قبرستان ہمیں بہت سال پہلے حوالے کیا گیا تھا اور اس کا رقبہ چار سو فٹ جبکہ لمبائی اور سو فٹ چوڑائی تھی اس میں اب مزید قبروں کی گنجائش نہیں ۔ آج کل مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ ہم تو یہ بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ہم اپنی میتوں کو اٹھا کر دوسرے شہروں تک لے جاسکیں۔ کیونکہ اس کے لئے ہمیں سالم گاڑی کرانا پڑتی ہے۔ آج کل جو ملک کے حالات ہیں اور پھر اگر سوات کو دیکھا جائے، تو ہماری مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ اب اگر کورونا وائرس کے ان حالات میں ہماری مسیحی کمیونٹی میں کوئی فوت ہوجائے، تو ہم اس کو کہاں لے کر جائیں گے۔ ہمارا تو سب سے زیادہ مسئلہ ہے۔ کیونکہ میت کو اٹھا کر پھر کہیں اور لے جانا آسان بات نہیں ہے۔ ان حالات میں تو ایسا ہے کہ جو جہاں مرگیا، تو اس کو وہاں دفنانا پڑتا ہے۔ مگر ہماری تو بد قسمتی سے قبرستان میں جگہ نہیں ہے۔ ہمارے رسم رواج بھی الگ ہیں۔ ہماری اپنی رسومات ہوتی ہیں، جنہیں پھر ہم ادا نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہم اپنی میت کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتے۔
عظیم مسیح مزید بتاتے ہیں کہ جب میری بیوی اور میرے والد صاحب فوت ہوئے۔ تو ہمیں ان کی میت کو کوہاٹ لے جانا پڑا ۔ کیونکہ سوات میں ہمارے قبرستان میں اب مزید گنجائش نہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ پہاڑی اور پتھریلی جگہ ہے، جہاں پر قبر کھودنا بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ یہ ہمارے لئے بہت مشکل ہے کہ ہم اپنی میتوں کو اتنا دور لے جائیں۔ جب سوات میں حالات خراب تھے، تو جن دہشت گردوں کو مار دیا جاتا تھاان کوان دنوں ہمارے قبرستان میں دفنایا جاتا تھا۔ اس طرح ہمارے قبرستان کا مسئلہ کئی سالوں سے ہے۔ میں اپنی کوششوں سے اپنے لواحقین کی میتوں کو تدفین کے لئے پشاور، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں لے جاتا ہوں۔ سوات کی مسیحی برادری کے ساتھ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ مسیحی برادری حکومت سے اپیل کرتی ہے کہ وہ قبرستان کے لئے انہیں زمین کا ایک ٹکڑا دے دیں۔
عظیم بتاتے ہیں اگر یہاں پہ قبرستان ہوتا، تو ہمیں آسانی ہوتی۔ ہمارے پیسے بھی بچ جاتے۔ وقت بھی اتنا خراب نہ ہوتا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارے پیارے ہمارے قریب ہوتے۔ ہمارا قبروں پہ کئی کئی سالوں تک جانا نہیں ہوتا۔ قبرستان تو ہمارا بنیادی حق ہے، اور ہم یہاں اپنے اس بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔ ہمیں وہ بھی نہیں مل رہا ۔ ہم اتنی بڑی کمیونٹی کے ساتھ سوات میں ایک عرصے سے رہ رہے ہیں ۔ پچھلے دو سالوں سے ہمارے لئے قبرستان کی جگہ کی خاطر بات کی گئی ہے۔ دو سالوں سے ہمیں یہی دلا سا دیا جا رہا ہے کہ آپ کے لئے قبرستان پر بہت جلد کام شروع کیا جائے گا، مگر ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم سوات میں بالکل بے یار مددگار پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی قبرستاں کا ہے۔ ہماری عبادت گاہ کا بھی مسئلہ ہے۔اپنی عبادت کے لیے ہم نے ایک جگہ کرایہ پر لی ہوئی ہے۔
عظیم مسیح مزید بتاتے ہیں کہ ہمارے قبرستاں کے ایسے حالات ہیں کہ جب میرا ڈھائی سال کا بھتیجا فوت ہوگیا تھا، اور میں اسے قبرستاں لے کر گیا تھا، تو وہ وقت میں نہیں بھول سکتا۔ ہمارے قبرستان کا راستہ اتنا تنگ ہے کہ جب میں اس کے پیر بچاتا تھا، تو اس کا سر لگتا تھا اور جب سر بچانے کی کوشش کرتا تو پیر لگتے تھے۔ ان حالات میں کیا کریں ہم، کہاں جائیں ؟ہمارے بھی پاکستان میں باقی شہریوں کے طرح برابر کے حقوق ہیں۔ ہم بھی تو پاکستان کے شہری ہیں۔ تو کیا ہمارا اتنا حق بھی نہیں کہ ہمارے لئے ایک قبرستان اور ایک عبادت گاہ بنائی جائے، جہاں ہم سکون سے اپنی میتوں کو دفنا سکیں اور عبادت کرسکیں
مسیحی برادری کے چرچ کے پادری:
مسیحی برادری کے چرچ کے پادری قیصر شہبازنے کہاکہ ان کی برادری کے بہت سے خا ندان سوات میں کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔ مختلف کاروبارسے وابستہ ہیں، مگرا ن کی برادری کے لئے عبادت خانہ اور چرچ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود سوات میں موجود چرچ میں آزادانہ اپنی مذہنی رسومات ادا کرتے ہیں۔ سوات کے لوگ ان کے ساتھ بہت عزت سے پیش آتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ان کا عبادت خانہ کرائے کے ایک مکان میں واقع ہے۔ جس کا وہ ماہانہ بیس ہزار روپے کرایہ دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ صفائی کے شعبے سے وابستہ ہیں اور مختلف اداروں میں بطور خاکروب کام کرتے ہیں ۔
قیصر شہباز مزید بتاتے ہیں کہ جس عمارت میں چرچ ہے، وہ انتہائی پرانی عمارت ہے۔ جب بارش ہوتی ہے، تو اس کی چھت میں ہر جگہ سے پانی ٹپکتا ہے ،جیسے بارش عمارت میں ہورہی ہو۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ انکے قبرستان اور عبادت خانے کے لئے جگہ فراہم کی جائے۔
ذرائع کے مطابق سوات میں تین سو سینتیس کے قریب مسیحی خاندان آباد ہیں۔اور انکے قبرستان کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے مسیحی براداری کے قبرستان کے لئے 70 لاکھ روپے مختص کئے تھے۔
اس بارے میں جب اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت نے صوبے کی تمام اقلیتوں کی مذہبی عمارات اور قبرستانوں کے لئے بارہ کروڑ سے زائد رقم مختص کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ محمودخان کی خصوصی ہدایات پر سوات کی مسیحی برادری کے قبرستان کے لئے 70 لاکھ روپے دئے گئے ہیں۔ جس پر چھ کنال زمین خریدنے کے لئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر سوات کو ہدایات جاری کی جاچکی ہیں۔ باہمی مشاورت سے زمین کا انتخاب کیاجائے گا اور بہت جلد مسیحیوں کے لئے قبرستان بنانے کا عمل پورا کردیاجائے گا۔ انہوں نے کہاکہ اقلیتی براداری کے لئے پی ٹی آئی حکومت نے پہلی مرتبہ اتنی خطیر رقم مختص کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقلیتوں کے لئے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ صفر اعشاریہ پانچ سے بڑھاکر پانچ فیصد کردیا گیاہے۔ اس وقت اقلیتی برادری کے کئی لوگ مختلف اہم سرکاری عہدوں پر تعینات ہیں جن میں ڈاکٹر،اور اساتذہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت تمام طبقوں کے لئے یکساں مراعات اور سہولیات دے رہی ہے۔