کیا تمام جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے پیچھے ایجنسیوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہے؟

11:19 AM, 24 May, 2023

مہ وش انعام
جبری گمشدگیاں یا لاپتہ افراد کا موضوع پاکستان میں اس وقت زیرِبحث ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جبری گمشدگی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لاقانونیت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کو لے کر حکومت اور فوج دونوں کو ہی پاکستان میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ جب کوئی شخص جبری گمشدگی کا شکار ہو یا لاپتہ ہو جائے تو اس کا خاندان جس کرب اور اذیت سے گزرتا ہے اس کا کوئی مداوا نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں یقیناً بہت سے خاندان اس کرب سے گزر چکے ہیں اور گزر رہے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر لاپتہ افراد اور جبری گمشدگی کے کیسز بلوچستان سے رپورٹ ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ملک کے سیاسی ماحول میں عدم استحکام کی وجہ سے دوسرے علاقوں سے بھی اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے تو ہمیں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگی میں فرق کو سمجھنا ہو گا۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق لاپتہ افراد وہ ہوتے ہیں کہ جن کے ٹھکانے کا علم نہیں ہوتا اور نا ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں کہ نہیں۔ جن لوگوں کی گمشدگی کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے حکام کو دی جائے وہ لاپتہ افراد کہلاتے ہیں۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ کا ماننا ہے کہ جبری گمشدگی وہ ہوتی ہے جس میں کوئی شخص ریاست کی رضامندی سے حراست میں لیا جائے یا کسی گروہ کی جانب سے غائب کیا جائے۔ ایسے افراد جو کسی وجہ سے کسی فرد یا گروہ کی زبردستی حراست میں ہوں مگر ان کا ٹھکانہ معلوم نہ ہو۔

ورلڈ پاپولیشن ریویو نےلاپتہ ہونے کی کچھ ممکنہ وجوہات بیان کی ہیں جن میں اغوا، تاوان، انسانی سمگلنگ اور سیاسی اہداف وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دماغی معذوری کے شکار افراد غیر ارادی طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جبری گمشدگی کی وجوہات میں بدعنوانی، مجرمانہ سرگرمیاں اور بغاوت وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ افراد قرض ادا نہ کرنے، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا مجرمانہ عناصر سے بچنے کی غرض سے ارادے سے غائب ہو جاتے ہیں اور مشہور یہ ہو جاتا ہے کہ وہ جبری طور پر گمشدہ کر لیے گئے ہیں۔

ہر سال بہت سے لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد امریکہ میں بتاتی جاتی ہے۔ این سی آئی سی کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں 521,705 افراد لاپتہ ہوئے تھے۔ کیلیفورنیا میں لاپتہ افراد کی شرح ہر 100,000 افراد میں تقریباً 7.6 فیصد ہے۔ الاسکا جو کہ بہت کم آبادی والا علاقہ ہے، اس میں اب تک لاپتہ افراد کی سب سے زیادہ شرح ہے، جہاں فی 100,000 آبادی پر 163 افراد لاپتہ ہیں جو کہ کسی بھی دوسری ریاست سے کہیں زیادہ ہیں۔

امریکی ریاستوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اعداد و شمار


جولائی 2022 میں COIOED کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق لاپتہ افراد کے کل 8,696 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے 6,513 معاملات کو حل کیا جا چکا ہے جبکہ 2,219 ابھی بھی زیر التوا ہیں۔ پاکستان میں کچھ عناصر کی جانب سے اس مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر دیکھا جائے اور اس مسئلہ کے حوالے سے پاکستان کا موازنہ دنیا کے باقی ممالک سے کیا جائے تو پاکستان میں جبری گمشدگی یا لاپتہ افراد کے واقعات کا تناسب بہت کم ہے۔

دنیا بھر سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اعداد و شمار


لاپتہ افراد اور جبری گمشدگی کے حوالے سے پاکستان کے صوبے بلوچستان کو بہت زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ کلبھوشن یادو کی گرفتاری سے یہ بات تو واضح ہو گئی تھی کہ سی پیک کا ترقیاتی پروگرام پاکستان مخالف عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور بہت سے دشمن ممالک کی ایجنسیاں موقع ملتے ہی بلوچستان میں اپنی کارروائیاں کر گزرتی ہیں۔ بلوچستان کے بہت سے بھولے بھالے لوگ ان کی چالوں میں آ کر ان کے گروہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں گلزار امام شمبے کی گرفتاری نے اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ، این جی اوز اور اداروں کو بلوچستان میں زمینی حقائق کی جانچ اور احوال بیان کرنے کی کھلی چھوٹ ہے مگر جب ان کے مقاصد پورے نہیں ہوتے وہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ایک بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگی میں واضح فرق کا نا پتہ ہونا اور معلومات کی کمی کی وجہ سے ہر ایسے کیس کو عمومی طور پر ریاست یا ایجنسیوں سے جوڑ دیا جاتا ہے جو کہ یقیناً بلاوجہ کے بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ان میں سے ایک انتہائی اہمیت کا حامل مسئلہ عوام کا ریاست کے خلاف کھڑے ہو جانا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایسا ہونے سے ریاست پر لوگوں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔ اگر ہم حالات اور واقعات کا جائزہ لیں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ زیادہ تر کیسز میں یا تو وہ افراد تھے جو جہاد کی خاطر شام یا افغانستان گئے یا وہ جرائم پیشہ افراد تھے جو ریاست سے بچنے کے لیے خود روپوش ہوئے یا پھر وہ افراد جن کو کسی دشمنی کی بنیاد پر کسی گروہ نے اغوا کیا۔

ریاست نے جب بھی کسی شخص کو حراست میں لیا، کسی نہ کسی جرم اور غلط کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں لیا ہے جس کے مکمل شواہد ریاست یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ ریاست ایسے افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کرتی ہے، معلومات حاصل کرتی ہے اور رہا کر دیتی ہے۔ عوام اگر حقیقت کو پہچانیں اور خود جاننے کی اور سمجھنے کی کوشش کریں تو ان کی اس حوالے سے ریاست سے متعلق غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔

دعا ہے کہ پاکستان اس کڑے وقت سے کامیابی سے نکلے اور ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہو۔ عوام اور اداروں کے مابین اتحاد، اعتماد اور محبت میں ہی طاقت ہے۔
؎دلوں میں حبِّ وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
مزیدخبریں