علامہ اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط
اقبال کے جناح کے نام کل 13 خطوط ہیں جن میں سے زیادہ تر مسلم لیگ کے داخلی معاملات، پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے ساتھ معاملات اور سکندر جناح پیکٹ کے حوالے سے ہیں۔ ان خطوط سے واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال اتحاد پارٹی کی سیاست کو سخت ناپسند کرتے تھے اور سکندر جناح پیکٹ کے متعلق ان کے شدید تحفظات تھے۔ ان 13 خطوط کی داخلی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ پہلا خط جناح کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے اور اس کے بعد جناح نے صرف 2 خطوط کا جواب دیا ہے، لیکن سکندر جناح پیکٹ کے بارے میں لکھے گئے کسی خط کا جواب نہیں دیا گیا۔ اس مضمون میں زیرِ بحث مسئلے کے بارے میں 3 خطوط بہت اہم ہیں لیکن ان خطوط کا جائزہ لینے سے پیش تر یہ مناسب ہو گا کہ ان کے پس منظر کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔
اقبال کے خطبہ الہٰ آباد کے بعد ہندوستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ 1935 کے ایکٹ کا نفاذ ہو چکا تھا جو مسلمانوں کے نکتہ نظر سے مایوس کن تھا۔ اس ایکٹ کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی منعقد ہو چکے تھے جن میں کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ کی کارکردگی اقلیتی صوبوں میں تو بری نہ تھی مگر اکثریتی صوبوں میں بہت خراب رہی تھی۔ صوبوں میں کانگریسی حکومتوں کے قیام کے بعد ہندوؤں کا رویہ بہت جارحانہ ہو چکا تھا۔ حتی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے خلاف ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کرتی جا رہی تھیں۔ اقبال کے خیال میں وہ مسلمانوں کو دہشت زدہ کر دینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں کانگریس کا رویہ منیر نیازی کے الفاظ میں یہ تھا؛
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہئیے
کانگریس نے 19 مارچ 1937 کو دہلی میں ایک کُل ہند قومی کنونشن کا انعقاد کیا جس میں صوبائی اسمبلیوں کے 800 کانگریسی ارکان نے شرکت کی تھی۔ پنڈت نہرو نے اس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مسلم عوام سے رابطہ کرنے کی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ پنڈت جی کو اعتراف تھا کہ اس وقت تک کانگریس مسلم عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ان کے نزدیک اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس اب تک فرقہ پرست رہنماؤں سے بات چیت کرتی رہی ہے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ مسلمانوں سے براہ راست رابطہ کر کے انہیں کانگریس میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ اس تقریر میں انہوں نے فرمایا:
'تعجب ہے کہ ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک الگ گروہ تصور کر کے ہندوؤں سے سمجھوتہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ انداز فکر قرونِ وسطیٰ میں رائج ہو تو ہو، موجودہ زمانے میں اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ آج کل ہر چیز پر اقتصادی نکتہ نظر سے غور کیا جاتا ہے۔ جہاں تک افلاس، بے کاری اور قومی آزادی کا سوال ہے، ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور مسیحیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چوٹی کے فرقہ پرست لیڈر ہر وقت حصے بخرے کرنے اور بٹوارے کی باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ان کی قوم کو ملازمتوں میں کتنا حصہ ملے گا اور اسمبلی میں کتنی نشستیں حاصل ہوں گی۔ ان لیڈروں کو چھوڑ کر جب ہم عوام سے براہ راست ملتے ہیں تو ہمیں وہی مشترکہ مسائل کارفرما نظر آتے ہیں، جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، یعنی افلاس، بے کاری اور قومی آزادی کی لگن'۔ (بحوالہ اقبال کا سیاسی کارنامہ از محمد احمد خان، ص 456۔ خطوط کے ترجمے کے لیے میں نے اسی کتاب پر انحصار کیا ہے البتہ چند مقامات پر الفاظ کو تبدیل کیا ہے۔)
پنڈت نہرو کے اس اعلان کے اگلے ہی دن یعنی 20 مارچ 1937 کو اقبال نے جناح کو یہ خط تحریر کیا:
'مائی ڈیئر مسٹر جناح! آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کے اس خطبہ کو پڑھا ہو گا، جو انہوں نے آل انڈیا نیشنل کنونشن میں دیا تھا اور یہ کہ آپ نے اس پالیسی کا پوری طرح اندازہ کر لیا ہو گا، جو مسلمانوں کے متعلق اس خطبے میں بیان کی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس امر سے پوری طرح باخبر ہیں کہ نئے دستور نے کم از کم مسلمانان ہند کو ان سیاسی تغیرات کے پیش نظر، جو مستقبل میں ہندوستان اور مسلم ایشیا میں رونما ہونے والے ہیں، اپنے آپ کو منظم کرنے کا ایک انوکھا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم ملک کی دوسری ترقی پسند جماعتوں سے بے شک تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہئیے کہ ایک اخلاقی اور سیاسی طاقت کی حیثیت سے اسلام کے پورے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک مسلمانان ہند کی مکمل تنظیم پر ہے۔ لہٰذا میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کا ایک مؤثر جواب دیا جائے۔
'آپ کو چاہئیے کہ دہلی میں جلد از جلد ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں، جس میں نئی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے علاوہ دوسرے ممتاز مسلم رہنماؤں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔ آپ کو چاہئیے کہ اس کنونشن کی طرف سے پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ممیّز، جداگانہ سیاسی وحدت کا بطور نصب العین اعلان کر دیں۔ یہ امر قطعاً ناگزیر ہے کہ ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دنیا کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہندوستان کا حل طلب مسئلہ صرف معاشی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ مسلم نکتہ نظر سے ثقافت اور تہذیب کا مسئلہ نسبتاً زیادہ دور رس نتائج کا حامل اور بہر نوع کسی طرح معاشی مسئلہ سے کم اہم نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا کنونشن منعقد کر سکیں تو ان مسلم ارکانِ مجالسِ قانون ساز کی حیثیت کا پول کھل جائے گا، جنہوں نے مسلمانانِ ہند کی خواہشوں اور تمناؤں کے خلاف اپنی جداگانہ جماعتیں قائم کر لی ہیں۔ مزید براں اس کنونشن سے ہندوؤں پر بھی عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی چال، خواہ وہ کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، ہندی مسلمانوں کو اپنی ثقافتی وحدت سے غافل نہیں کر سکتی'۔
اقبال نے 28 مئی کو جناح کے نام ایک اور طویل خط بصیغہ راز تحریر کیا جس میں ہمارے زیر بحث موضوع کے متعلق اقبال نے دو اہم باتیں کی ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل 'ایک یا ایک سے زاید آزاد مسلم ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔ کئی سال سے یہ میرا ایماندارانہ ایقان رہا ہے اور میں اب بھی مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ حل کرنے کا اور ایک پرامن ہندوستان حاصل کرنے کا اسی کو واحد طریقہ سمجھتا ہوں۔۔۔ ان مسائل [اقتصادی اور معاشرتی جمہوریت] کو مسلم ہندوستان میں حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ازسر نو تقسیم کیا جائے اور ایک یا ایک سے زاید ایسی مسلم ریاستیں قائم کی جائیں جہاں (مسلمانوں کی ) اکثریت قطعی ہو، کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا ہے؟' ( ایضاً۔ ص 474-5)
اس خط میں ملک کی ازسرِ نو تقسیم کی جو تجویز پیش کی گئی ہے اس کا مطلب صوبوں کی نئی حد بندی ہے تا کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو واضح اکثریت حاصل ہو اور وہ مؤثر حکومت تشکیل دے سکیں جو اپنے وجود کے لیے غیر مسلموں کی حمایت کی محتاج نہ ہو۔ کیونکہ اقبال کے خیال میں 'ایک پُرامن ہندوستان حاصل کرنے کا' یہی واحد راستہ ہے۔ وہ تقسیمِ ہند کا کوئی فارمولا پیش نہیں کر رہے۔
اس خط کا جواب موصول ہونے پر اقبال نے 21 جون کو ایک اور طویل خط بصیغہ راز لکھا جو اس سلسلے کا شاید اہم ترین خط ہے جس میں اقبال نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
'مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ دستورِ جدید ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریت کے صوبوں میں ہندوؤں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ وہاں مسلمانوں کو بالکلیہ نظر انداز کر سکتے ہیں۔ برخلاف اس کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو ہندوؤں کا دست نگر رکھا گیا ہے۔ مجھے اس امر میں شک و شبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ موجودہ دستور ہندی مسلمانوں کے لیے زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ مزید براں یہ دستور تو اس معاشی تنگ دستی کا جو مسلمانوں میں شدید تر ہوتی جا رہی ہے، کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ فیصلہ (Communal Award) ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی ہستی کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن کسی قوم کی ایسی سیاسی ہستی کا اعتراف، جو اس کی معاشی پس ماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کر سکے، اس کے لیے بے سود ہے۔
'کانگریس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت ہی سے انکار کر دیا ہے۔ ہندوؤں کی دوسری سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا نے، جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت سمجھتا ہوں، بارہا اعلان کیا ہے کہ ہندو اور مسلمان کی متحدہ قومیت کا وجود ہندوستان میں ناممکن ہے۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ ایک پُرامن ہندوستان حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ لسانی، مذہبی اور نسلی میلانات کی بنا پر ملک کو ازسرنو تقسیم کر دیا جائے۔
'اکثر برطانوی مدبرین اس حقیقت کو محسوس کرتے ہیں اور ہندو مسلم فسادات جو اس دستور کے جلو میں پوری تیزی سے رونما ہو رہے ہیں، یقین ہے کہ ملک کی صحیح صورت حال کو ان پر واضح کر دیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے میری روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری سکیم ہی ہندوستان کی مشکلات کا واحد ممکنہ حل ہے، لیکن اس کے بارآور ہونے کے لیے 25 سال درکار ہوں گے۔۔۔
'میرے خیال میں تو جدید دستور سارے ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بنا پر بالکلیہ یاس انگیز ہے۔ ان خطوط پر جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے مسلم صوبوں کے ایک علیحدہ وفاق (Separate Federation) کی تشکیل ہی وہ واحد طریقہ عمل ہے، جس کے ذریعے ہم ایک پرامن ہندوستان حاصل کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچا سکتے ہیں۔
'شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو کیوں نہ ایسی قوم قرار دیا جائے، جنہیں ہندوستان کے اندر اور ہندوستان سے باہر رہنے والی دوسری قوموں کے مانند خود اختیاری کا استحقاق ( right to self-determination) حاصل ہے؟
'ذاتی طور پر میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیتی صوبوں کو نظر انداز کر دینا پڑے گا۔ مسلم اکثریت اور مسلم اقلیت کے صوبوں کا مفاد اسی طریقہ کار کے اختیار کرنے میں مضمر ہے'۔ (ایضاً۔ ص 471-73)
اس خط میں اقبال نے دو بہت اہم باتیں کی ہیں جو بہت دوررس نتائج کی حامل ہیں۔ اولاً مسلم صوبوں کے علیحدہ فیڈریشن کی تجویز پیش کی ہے جس میں وہ ایک آزاد ملک کے مطالبے کے بہت قریب آ گئے ہیں لیکن اقبال اس تجویز کو ایک پرامن ہندوستان کے حصول کی شرط قرار دے رہے ہیں۔ بعد کے حالات اور ہندوؤں کے رویے نے حالات کو اس ڈگر پر ڈال دیا جہاں تقسیم کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔
ان کی دوسری تجویز اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے بارے میں ہے کہ فی الحال اکثریتی صوبوں کو انہیں نظر انداز کرنا پڑے گا۔ اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں بھی پاسنگ کے تصور کو رد کر کے پنجاب اور بنگال میں ان کی اکثریت کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ میثاقِ لکھنؤ میں بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کی اکثریت کم کر کے یو پی، بہار اور دیگر صوبوں کے مسلمانوں کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا تھا جس کا اقلیتی صوبوں کو تو کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن اکثریتی صوبوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ چنانچہ اقبال اس پاسنگ کو رد کر کے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
خطبہ الہٰ آباد اور خطوط کے مطالعے سے دو نتائج اخذ ہوتے ہیں؛
(1) اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں ہندوستان کو تقسیم کر کے کسی علیحدہ مملکت کے قیام کا کوئی تصور پیش نہیں کیا تھا۔
(2) جناح کے نام 21 جون 1937 کو تحریر کردہ خط میں وہ اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ 'مسلم صوبوں کے ایک علیحدہ وفاق (Separate Federation) کی تشکیل ہی وہ واحد طریقہ عمل ہے، جس کے ذریعے ہم ایک پرامن ہندوستان حاصل کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچا سکتے ہیں'۔ یہاں اقبال کے علیحدہ فیڈریشن کے الفاظ کو یہ معنی پہنائے جا سکتے ہیں کہ وہ ایک الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ پیش کر رہے ہیں، سیاق کلام اگرچہ اس کی تائید نہیں کرتا۔
اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے تو ایک خط میں بیان کردہ رائے کیا اتنی اہم ہو جاتی ہے کہ اقبال کو تصورِ پاکستان کا خالق قرار دے دیا جائے؟
تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ نے علامہ اقبال کو مصورِ پاکستان قرار دیا تھا؟
اب یہاں ایک اہم سوال سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ آیا مسلم لیگ کی قیادت نے تحریک پاکستان کے دوران میں کبھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا تھا اور وہ ان کے تصور کے مطابق ایک نئی مملکت کی تشکیل کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم مسلم لیگ کی دستاویزات سے رجوع کریں اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مسلم لیگ کے سالانہ جلسوں کی رودادیں مطبوعہ صورت میں دستیاب ہیں۔ ان کے مطالعے سے تحریک پاکستان کے بارے میں مسلم لیگ کی جدوجہد کو جاننے کے لیے ہمیں بنیادی آگاہی میسر آتی ہے۔
1938 کا سال مسلمانان ہند پر بہت بھاری تھا کہ اس برس علامہ اقبال اور مولانا شوکت علی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اسی برس دسمبر میں پٹنہ کے مقام پر مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا اور اس موقع پر مولانا شوکت علی کے انتقال پر 234 الفاظ پر مشتمل قرارداد تعزیت منظور کی گئی جس میں ان کی سیاسی خدمات کو بے پناہ خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی علامہ اقبال کے لیے جو قرارداد تعزیت منظور کی گئی وہ صرف 96 الفاظ پر مشتمل تھی اور اس قرارداد میں انہیں فلسفی اسلام اور ایک عظیم قومی شاعر کی حیثیت سے خراج تہنیت پیش کیا گیا ہے تاہم ان کی سیاسی خدمات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
اسی اجلاس میں قائد اعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں مولانا شوکت علی کا تذکرہ زیادہ تفصیل کے ساتھ کیا اور اس سے مختصر تر الفاظ میں علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جس میں ان کی شاعرانہ عظمت کا ذکر تو کیا مگر ان کی سیاسی خدمات کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اس کے بعد مارچ 1940 میں مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں مشہور زمانہ قرارداد لاہور منظور کی گئی اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی کے دوران میں کسی مقرر نے اور نہ جناح صاحب نے اپنی تقریر میں اس بات کا کوئی ذکر کیا کہ وہ اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر رہے ہیں۔ حتی کہ مسلم لیگ کے 1947 تک منعقد ہونے والے سالانہ اجلاسوں میں کبھی اقبال کا کوئی تذکرہ ہوا، نہ کسی مقرر نے انہیں تصور پاکستان کا خالق قرار دیا۔
البتہ دو مواقع ایسے ہیں جب جناح صاحب نے اقبال کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے بھی ایک علیحدہ مملکت کا خیال ظاہر کیا تھا۔ خطوط اقبال بنام جناح، جو 1942 میں پہلی دفعہ شائع ہوئے، کے پیش لفظ میں انہوں نے لکھا ہے:
'میرے خیال میں یہ خطوط بڑی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، خاص طور پر وہ، جو مسلم ہندوستان کے مستقبل سے متعلق ان کے خیالات کو صاف اور غیر مبہم انداز میں واضح کرتے ہیں۔ میرے خیالات بنیادی طور پر ان کے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور ہندوستان کو درپیش دستوری مسائل کے بااحتیاط مطالعے اور بغور چھان پھٹک کے ماحصل نے بالآخر مجھے بھی اسی نتیجے تک پہنچا دیا اور یہی خیالات کچھ عرصہ بعد، مسلم ہند کے متحدہ ارادے کی صورت میں کل ہند مسلم لیگ کی قرارداد لاہور میں ظاہر ہوئے جس کو عام طور پر قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے اور جو 24 مارچ 1940 کو منظور ہوئی'۔ (Letters of Iqbal to Jinnah,P.6-7)
دوسری دفعہ 1944 میں یومِ اقبال کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا:
'ایک عظیم شاعر اور مفکر ہوتے ہوئے وہ کسی عملی سیاست دان سے کم نہ تھے۔ اسلام کے اصولوں پر ان کے پختہ عقیدے اور ایمان کی بدولت وہ ان چند ہستیوں میں سے ایک تھے جس نے ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطوں، جو مسلمانوں کے تاریخی اوطان ہیں، میں ایک اسلامی ریاست کے ممکنہ انعقاد پر غور کیا'۔ (ڈاکٹر جاوید اقبال، زندہ رود، جلد سوم۔ ص 423)
کیا مندرجہ بالا دونوں اقتباسات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ اقبال تنہا تصورِ پاکستان کے خالق تھے؟ محمد احمد خان نے اپنی ضخیم کتاب 'اقبال کا سیاسی کارنامہ' میں اس بات کو بالاصرار بیان کیا ہے کہ صرف اقبال ہی ہیں جنہیں تصور پاکستان کا خالق کہنا سزاوار ہے۔ بیسویں صدی میں جب ہندوستان میں جمہوری اداروں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا تو صاحبان بصیرت پر یہ بات مخفی نہیں تھی کہ ہندوستان جیسے متنوع ملک میں برطانوی طرز کی جمہوریت کا قیام اتنا آسان نہ ہو گا۔ اس لیے مختلف لوگ مختلف اوقات میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین توازن کا کوئی فارمولا دریافت کرنا پڑے گا۔ ہندوستان کو جن دستوری اور آئینی مسائل کا سامنا تھا ان کے حل کے لیے جہاں اور بہت سے لوگوں نے، جن میں انگریز، ہندو اور مسلمان سبھی شامل ہیں، اپنی آرا کا اظہار کیا ہے، ان میں ایک رائے اقبال کی بھی ہے اور یہی قائد اعظم کا کہنا ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ تحریک پاکستان کے ایک نامور رہنما اور قائد اعظم کے دست راست ایم۔ اے۔ ایچ۔ اصفہانی کا یہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے جسے ڈاکٹر جاوید اقبال نے احسان فراموشی کی مثال قرار دیا ہے:
'اس بات سے بلاشبہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر اقبال کی فکر، شاعری اور خطبات بھی اسی سمت میں اشارہ کرتے تھے (یعنی مسلم ریاست کے قیام کی طرف) لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے، تاریخ کو مسخ کرنا ہے'۔ (زندہ رود، جلد سوم، ص 389)
علامہ اقبال کو کب تصورِ پاکستان کا خالق قرار دیا گیا؟
ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ علامہ اقبال کو کب اور کن لوگوں نے تصور پاکستان کا خالق قرار دیا اور اس کی وجوہ کیا ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اس تصور کا پرچار کرنے میں پنجاب کے بعض صحافیوں اور مذہبی طبقے نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پنجاب کے بعض صحافی جو علامہ اقبال سے قرب رکھتے تھے، وہ بوجوہ جناح کی قیادت کو ناپسند کرتے تھے اور اس کے بارے میں تحفظات کا شکار تھے۔ مذہبی طبقے کے لیے جناح کی قیادت کو تسلیم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ جناح اپنے حلیے، لباس اور طرز بود و باش میں مذہبی طبقے سے کوسوں کے فاصلے پر تھے اور انہیں کسی بھی طرح مولانا محمد علی جناح بنانا ممکن نہیں تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے مسلمانوں کی قیادت زیادہ تر مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھی، یا اس میں وہ صحافی نمایاں تھے جو مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ حتی کہ علی برادران کو بھی سیاست میں آنے اور قیادت کی صف اول میں کھڑا ہونے کے لیے مولویوں کی شباہت اور لباس اختیار کرنا پڑا۔ اسی دوران میں ہندوستان میں خلافت کے نام پر ایک انتہائی بے مقصد اور جذباتی تحریک شروع کر دی گئی۔ اس سے پہلے ریشمی رومال تحریک اور مولانا ابو الکلام آزاد نے ہندوستان سے ہجرت کا تباہ کن فتویٰ بھی دے دیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان خاندان تباہ و برباد ہو گئے۔ خلافت کی تحریک میں مسلمانوں نے بے پناہ مالی قربانی دی حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہت خوار و خستہ تھی۔ اس کے باوجود اس زمانے میں لاکھوں روپے کا چندہ جمع کیا گیا۔ بالآخر ایک دن یہ جذباتی تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔ اس تحریک کا ایک اچھا اور پائیدار نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس کے بعد مسلمانان ہند نے کبھی بھی مولویوں کی سیاسی بصیرت پر اعتماد نہیں کیا اور ان کی سیاسی قیادت کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا۔
اس مایوسی کے عالم میں مسلمانان ہند کو جناح کی صورت میں ایک ایسا لیڈر نظر آیا جو جدید زمانے کے تقاضوں کو خوب سمجھتا تھا، جو انگریزوں اور ہندوؤں کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ دیانت و امانت میں بے مثال کردار کا مالک تھا کیونکہ اس سے قبل جو بھی قیادت تھی اس پر تحریک کے بعد چندے کھانے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ جو مذہبی طبقہ کانگریس کے جارحانہ رویے سے دل برداشتہ ہوا اس کے لیے جناح کی قیادت کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔ تاہم وہ اس باب میں نفسیاتی الجھن کا شکار رہے اس لیے انہیں اپنے فیصلے کے جواز میں کبھی خوابوں کا سہارا لینا پڑتا تھا اور کبھی دیگر عُذر تراشنے پڑتے تھے۔
خورشید ندیم نے روزنامہ دنیا میں اپنے 30 اپریل 2016 کے کالم میں لکھا تھا :
'اگر اہلِ مذہب کے ایک بڑے طبقے نے قائد اعظم کو اپنی سیاسی قیادت کے لیے منتخب کیا تو کیوں؟ اس کا جواب جماعت علی شاہ صاحب نے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلمان قوم کو ایک مقدمہ درپیش ہے اور اسے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔ وکیل میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ دیانت دار ہو اور اہل ہو۔ قائد اعظم میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں'۔
پیر جماعت علی شاہ صاحب کا یہ جواب بہت معنی خیز ہے اور زیادہ تر مذہبی طبقے کا شاید یہی رویہ تھا کہ ان کے نزدیک جناح کی حیثیت بس مقدمے کے وکیل کی تھی۔ یہ بات ہر ایک پر عیاں ہے کہ وکیل کا مالِ مقدمہ پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ مقدمہ آپ نے جیت لیا اور وکیل کا کردار ختم ہو گیا۔ اب یہ مدعیانِ مقدمہ کا استحقاق ہے کہ وہ مالِ مقدمہ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
حُبِّ اقبال سے زیادہ بُغضِ جناح
اسی بات میں اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ تصورِ پاکستان کا خالق علامہ اقبال کو کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اقبال اگرچہ تمام عمر دینِ مُلّا کے خلاف نغمہ سنج رہا تاہم اس کی شاعری کا کچھ حصہ ایسا ہے جسے مولوی لوگ اپنے من پسند معنی پہنا سکتے ہیں اور پہنا رہے ہیں۔ اب یہ اس کی شاعرانہ عظمت کا کمال ہے کہ اس پر کفر کے فتوے لگانے والوں کا بھی اس کے اشعار پڑھے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔
اس ساری گفتگو کا ماحصل یہی ہے کہ اقبال کو تصورِ پاکستان کا خالق قرار دینے کے دعوے کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس سارے افسانے کا اصل مقصد قائد اعظم کے کردار کو کم کرنا ہے اور ایسا کرنے کا سبب اقبال سے محبت نہیں بلکہ جناح سے بُغض ہے۔ اگرچہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعض خوش فہم لوگ، جو اقبال اور جناح دونوں سے عقیدت رکھتے ہیں، نادانستگی میں اس دامِ پُر فریب کا شکار ہو گئے ہیں۔ (ادب لطیف۔ فروری 2021)