مولانا ابوالکلام اپنی جگہ درست تھے۔ وہ مستقبل کو پڑھنا جانتے تھے۔ محض برصفیر کے مسلمانوں کے معاملے میں ہی نہیں، اسلام کے مستقبل کے بارے میں بھی ان کا قیاس درست تھا۔ ان کا اسلام کی تایخ پر تجزیہ بیحد مفصل اور آزادانہ آرا پر مبنی ہے۔ گو ان کی آرا سے لگتا ہے کہ وہ مسلم امہ کے اتحاد کی بات کرتے تھے لیکن میرے خیال میں یہ رائے یا خیال مسلم اقلیت کے حقوق کی فکر میں پیش کی گئی ہے، مسلمان اقلیت جو تقسیم کے بعد سکڑ کر مزید کم رہ گئی۔
یہی تصور قائد اعظم کا بھی تھا جن کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی یہ اقلیت ایک خود مختار ریاست میں اکثریت میں تبدیل ہو جائے گی۔ (یاد رہے کہ قائد اعظم نے کبھی علیحدہ وطن کا مطالبہ پیش نہیں کیا تھا، نہ ہی یہ مطالبہ اللہ آباد قرارداد میں موجود تھا اور نہ ہی کابینہ مشن میں اس پر اتفاق کیا گیا تھا)۔ ان کو ڈر تھا کہ قانونی تحفظ کے بنا مسلمان ہندو برادری کے ہاتھوں تاریخی دشمنی اور فرق کے باعث استحصال کا شکار ہو جائیں گے۔ البتہ قائد اعظمؒ نے اس نکتے کو یکسر نظرانداز کر دیا کہ تمام مسلمان ایک نئے وطن کی جانب ہجرت نہیں کریں گے (جب انہوں نے پاکستان کے قیام کی پیشکش کو تسلیم کیا) اور کیسے شدید ثقافتی اختلافات اور معاشی تحفظات، ٹرانسپورٹ اور ذرائع مواصلات مسلمان مہاجروں کی آمد کو ان علاقوں میں خوش آمدید کہنے میں رکاوٹوں کا باعث بنیں گے جو کہ مسلمان اکثریت پر مشتمل تھے (اس ضمن میں سندھ میں مہاجروں کی مثال موجود ہے)۔ قائد اعظم کا اندازہ اس معاملےمیں درست ثابت نہیں ہوا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور قائد اعظم محمد علی جناح دونوں کے تحفظات مسلمانوں کی بطور اقلیتی آبادی تھے نہ کہ اسلام کو لوگوں کو ایک متحد کرنے والے مذہب کے بارے میں۔ چنانچہ یہ دونوں ہی اپنے اپنے نظریات کا علم تھامے ایک جوا کھیل رہے تھے۔ اگر وہ اقلیت کے طور پر ہندوستان میں ہی رہ جاتے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ مسلمانوں کو "اکثریت کے استحصال" کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اور اگر تقسیم ہو جاتی تو اس بات کی ضمانت موجود نہیں تھی کہ مسلمان پھر بھی متحد رہ سکیں گے۔
میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ سب دراصل مسلمانوں کو ایک قوم سمجھنے کے غلط اندازے اور نظریے کے باعث ہوا، جس پر ابوالکلام بھی لاشعوری طور پر یقین رکھتے تھے۔ ابوالکلام آزاد اور قائد اعظم دونوں کے طور طریقوں میں تضادات موجود تھے، گو یہ ان کے پیروکاروں کیلئے اچنبھے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ یہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی شعبہ جات کی کثیر تعداد نے ان دونوں رہنماؤں کی تقلید کی۔ لبرلز، لیفٹسٹ، قوم پرست، اور مذہبی گروہوں نے ان دونوں رہنماؤں کی تقلید کی اور اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی یہ اقلیت ثقافتی طور پر کس قدر تغیر پذیر اور جداگانہ تھی۔ وہ تضاد جس کا پہلی سطروں میں ذکر کیا گیا ہے کافی نمایاں تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک مذہبی عالم تھے اور سیکولر جماعت کانگریس سے وابستہ تھے جبکہ قائد اعظمؒ ایک لبرل اور سیکولر شخص تھے اور قدامت پسند جماعت مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کے سیاسی مقاصد یا تو مبہم تھے یا پھر نمایاں تضادات کا شکار تھے۔ آپ ایک ہی وقت میں دونوں جانب سے نہیں کھیل سکتے ہیں۔ اگر ان دونوں نے اپنی اپنی سیاسی پوزیشنیں تبدیل کر لی ہوتیں تو پھر تضادات سے متعلق کوئی ابہام باقی نہ رہتا اور برصغیر کے مسلمانوں کو بھی سمجھنے اور تقلید کرنے کیلئے ایک آسان اور سادہ کہانی مل جاتی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تقسیم نہ ہوتی تو پھر مسلمانوں کی آبادی کا ہندوؤں کی اکثریت والے ملک میں مستقبل کے خدشات کا کیا حل موجود تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا حل ریاست کو مکمل طور پر سیکولر بنانے میں موجود تھا۔ البتہ ریاست کو سیکولر بنانے کا یہ کام متحدہ ہندوستان میں بھی اتنا ہی مشکل ثابت ہوتا جتنا مشکل یہ اس وقت ان دونوں ممالک میں ہے۔ خیر پاکستان اب ایک حقیقت ہے اور اسے ایک ڈی حقیقت ہی کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ہم تاریخ کا مطالعہ کر کے ان دونوں رہنماؤں کے کرداروں پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں لیکن کسی کی طرفداری کرنے یا کسی پر بلا جواز تنقید کرنے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ وہ دونوں رہنما بھی انسان تھے اور ایک پیچیدہ صورتحال اور پیچیدہ آئیڈیلز کے ساتھ وہ ایک پیچیدہ اور تاریخی طور پر جڑے ہوئے کلچر (صرف مذاہب پر مشتمل نہیں) کے محرکات کی گتھی کو سلجھا نہیں پائے۔ میرے خیال میں اگر ہم ان مفروضات کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر کام کریں تو تبھی ہم موجودہ صورتحال کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ییں اور حقیقت پسندانہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔