طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری عالمی سطح پر ایک لاکھ بچوں میں سے صرف ایک کو ہی لاحق ہوتی ہے۔ جبکہ یہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
ژہو کا تعلق چین کے شہر کنمنگ سے ہے۔ ان کا تین سالہ بیٹا حرکت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لاعلاج بیماری سے نبرد آزما اس بچے کے پاس صرف تین ماہ کا وقت ہے۔
تاہم ژہو ناامید نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں خود یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ میرا بیٹا حرکات وسکنات کے قابل نہیں ہے لیکن وہ ایک انسان ککی طرح احساسات اور جذبات کو تو محسوس کر سکتا ہے۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا کہ میں خود اس کا علاج کروں۔
خیال رہے کہ مینکس سینڈروم ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں انسانی جسم میں موجود کوپر کی مقدار متاثر ہوتی ہے۔ کوپر دماغ کی نشوونما کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا کوئی بھی شخص تین برس سے زیادہ عرصہ نہیں جی سکتا۔
چینی شہری ژہو کا کہنا ہے کہ میں کورونا کی وجہ سے اپنے بچے کو علاج کیلئے بیرون ملک نہیں لے کر جا سکتا۔ اسی وجہ سے میں اپنے بچے کا علاج خود کر رہا ہوں۔
انہوں نے اپنے گھر میں ایک لیبارٹری کی بنا رکھی ہے جس میں وہ اپنے بیٹے کی لاعلاج بیماری کیلئے دوا تیار کرتے ہیں۔ انھیں اس کی تیاری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس بارے میں تمام معلومات انگریزی زبان میں تھی۔ تاہم ترجمے کی مدد سے انہوں نے دوائی کیلئے تیاری کا تمام عمل سیکھا اور بالاخر اسے خود تیار کر لیا۔ ژہو اپنے بیٹے کو روزانہ اس دوا کی خوراک دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ علاج شروع کرنے کے دو ہفتوں کے اندر ہی خون کے نتائج نارمل آنا شروع ہو چکے ہیں۔
ژہو نے بتایا کہ دوا کا تجربہ انہوں نے سب سے پہلے ایک خرگوش پر کیا تھا۔ بعد ازاں دوا کی افادیت جانچنے کیلئے انہوں نے خود کو بھی انجیکشن لگائے، جب مکمل تسلی ہوگئی کہ میڈیسن ٹھیک تیار ہوئی ہے تو اس کے بعد ہی انہوں نے اسے بیٹے پر آزمایا۔
چینی چہری ژہو کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے میڈیسن بنانے والے عالمی ادارے 'ویکٹر بلڈر' نے 'جین تھراپی' پر تحقیق شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیبارٹری میں اس بیماری کے علاج کیلئے جانوروں پر تجربات کا آغاز کیا جائے گا۔