حالات گواہ ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں 74 سالوں میں کیا بویا کیا کاٹا۔ بجٹ میں تعلیم کے لئے جتنا حصہ رکھا جاتا ہے اس آدھ بھی صحیح خرچ نہیں ہوتا اور طلبہ کے مسائل کا کوئی مستقل حل کبھی نا نکال سکے۔
اس کے ساتھ ایک سوال نے جنم لیا جو ایک پامبھڑ کی طرح آج تک جل رہا ہے ۔کہ ' اگر آپ سب نے مل کر راج کرنا ہے تو اس کے لیے ہمارا خون کیوں چاہیے'۔
چاہے وہ زبردستی کے ٹیکس کی صورت میں ہوں یا ہماری سوچ کو محدود کرنے کی ٹیکسٹ بک ہو۔ تعلیم ہی ہماری مشکلات کا واحد حل ہے جو آنے والی نسل کو ہماری عزت کرنے پر مجبور کر سکتا ہے
کیونکہ کئی دہائیوں سے اٹھنے والی آواز آج گونج دار چیخ کی صورت اختیار کر گئی ہے، جس کو کبھی تختہ دار تک پہنچایا گیا۔ وہی آوازیں منوں مٹی کو دھکیل کے کسی نا کسی فرد واحد یا گروہ کے حلق سے نمودار ہوتی نظر آتی ہیں۔ کچھ دیوانے اس نئی سحر کے انتظار میں ہر ریلی یا جلوس میں طلبہ کی آزادی اور حق مانگتے نظر آتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے پاکستان میں طلبہ تنظیموں اور بڑی تحریکوں کا ساتھ ہمیشہ کا ہے۔ ایسی ہی ایک طلبہ تنظیم کو 2018 کے طلبہ یکجہتی مارچ میں دیکھا جو تعلیم کے مسائل کو لے کر اتنا سنجیدہ ہیں جتنا کسی بھی ملک کی حکومت کو ہونا چاہیے۔ ان بچوں کے سوال وہی ہیں جو پہلے ہر دور میں سامنے آئے اور آج بھی ان ہواؤں میں سلگ رہے ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں کی سوچ کی حد یہ نکلی کہ ایک حکومت کہتی ہے غریب کو 3000 کی انکم سپورٹ بہت ہے تو ایک صاحب اقتدار پڑھے لکھے کو روزگار دینے کی بجائے ٹیکسی چلانے پر زور دیتا ہے۔ اب کے اس ریاست کے مالک محنت کش عوام کو مفلوج بنانے کے لیے لنگر خانہ کھول دیتا ہے۔
علم سے دور عارضی سوچ عارضی منصوبے
جس طلبہ یکجہتی مارچ پر دل کھول کر قانونی کاروائی کی گئی حق مانگنے پر عمار جان اور فاروق طارق کے سر بغاوت کا تاج سجایا گیا جبکہ اس ریلی کا بچہ بچہ کم سے کم اس ملک کے نام نہاد تعلیمی سائنسدانوں سے بہتر ، مضبوط اور دیرپا منصوبے اپنے ذہن میں رکھے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کچھ عناصر ریٹائرڈ ہو کر بھی اس ملک کی جڑ میں اپنا مقام بنا لیتے ہیں۔
اب ایک دفعہ اور 26 نومبر کو وہی سوالات لیے طلبہ پھر سڑکوں پر آ رہے ہیں جن کا جواب کئی دہائیوں سے نہیں ملا۔ ان کے مطالبات کا چارٹ اور میری بنائی کچھ گزشتہ سالوں کی تصاویر۔