ڈائریکٹر جنرل ریلیف، بحالی اور آبادکاری صوبائی محکمہ خیبر پختونخوا نے شرکا کو خصوبائی حکومت کی جانب سے اب تک شروع کی گئی بحالی کی کوششوں کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک 95 ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ ممبران نے ریلیز اور رقم کے آڈٹ کے بارے میں پوچھا جس پر حکام نے جواب دیا کہ دوبارہ آباد کاری کی تمام ذمہ داری پاک فوج کے پاس ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا آڈٹ کیوں نہیں ہو سکا۔
کمیٹی ممبران نے سابق فاٹا میں تباہی اور مسماری کے ازالے کے لیے سروے کے طریقہ کار پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور معاوضے کی ادائیگی کے بارے میں کلیئرنس بھی مانگی۔
کمیٹی نے کہا کہ زمینی حقائق مختلف ہیں کیونکہ مکانات کی تعمیر نو کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کی گئی۔ ممبر نے کہا کہ 1200 دکانداروں کو رقم ادا کر دی گئی ہے لیکن صرف میرانشاہ میں کل 6600 دکانیں ہیں جنہیں آج تک ادائیگی نہیں کی گئی۔
کمیٹی نے سابق فاٹا میں عام لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ سابق فاٹا میں معاوضے اور سروے کے حوالے سے اراکین پارلیمنٹ کو آن بورڈ لیا جائے۔
کمیٹی اراکین نے آئندہ اجلاس پشاور میں منعقد کرنے کی تجویز بھی دی۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر صوبائی حکومت خیبرپختونخوا اور پی ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ 15 دنوں کے اندر عوامی نمائندوں اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ کرے تاکہ انہیں معاوضے اور اب تک کیے گئے سروے سے آگاہ کیا جا سکے۔
افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی جناب صادق خان نے تجویز پیش کی کہ تمام مسائل کو درج کیا جائے اور سابق فاٹا کو درپیش چیلنجز کی یہ فہرست خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور ضلعی حکومت کو بھیجی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کی ضرورت ہے۔
ممبر قومی اسمبلی محترمہ شاندانہ گلزار نے کہا کہ یہ کمیٹی سابق فاٹا میں عام لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے تشکیل دی گئی ہے کیونکہ ان کا روزگار خطرے میں ہے۔
رکن کمیٹی نے یہ معاملہ بھی اٹھایا کہ خیبر، باجوڑ اور دیگر علاقوں کے لوگوں کو معاوضے کے طور پر کوئی رقم ادا نہیں کی گئی۔ چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ انتظامی، ترقیاتی اور مالیات کے ورکنگ گروپ کی صرف دو کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے جس پر مزید غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
میرانشاہ تاجر برادری کے ایک نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارا اکیس ارب کا نقصان ہوا اور پانچ ارب دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود پانچ ارب بھی نہیں ملے اور ہمیں دہشتگردی اور پھر سرکاری ادارہ کے غفلت نے تباہ کیا۔
ایک سوال کے جواب میں خیبرپختونخوا حکومت کے ریلیف بحالی اور آباد کاری کے محکمے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ضلع خیبر میں 18500 میں سے 14 ہزار لوگوں میں امدادی چیکس تقسیم ہو چکے ہیں۔ ضلع کرم میں 8 ہزار 240 متاثرین ہیں جن میں 7 ہزار 300 پانچ لوگوں کی معاونت کی گئی ہے جبکہ باڑہ خیبر میں 12 ہزار متاثرین ہیں جن میں سے پانچ ہزار افراد کو مالی امداد فراہم کی گئی۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے کمیٹی ممبر اقبال آفریدی کا کہنا تھا یہ کہ حکومتی اعدادوشمار ہیں اور تباہی اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن کوئی کام نہیں کر رہا کہ متاثرین کے اصل اعدادوشمار کو معلوم کرسکیں۔
سینیٹر دوست محمد خان کا کہنا تھا ہمارا علاقہ تباہ وبرباد ہوچکا ہے، ایک پیسہ بھی نہیں ملا، میں اب بھی ٹینٹ میں رہتا ہوں اور لوگ اپنے مطالبات کیلئے دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کمیٹی رکن مفتی شکور نے کہا کہ 2008ء کے جنڈولہ آئی ڈی پیز کو اب تک ریلیف نہیں مل سکا جس کی وجہ سے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
سابق فاٹا کی ترقی کے لیے این ایف سی کے 3 فیصد حصہ کی عدم فراہمی کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے فنانس ڈویژن کے نمائندے نے شرکا کو 10ویں این ایف سی اجلاس اور سابق فاٹا کی ترقی کے لیے 3 فیصد حصہ مختص کرنے کے بارے میں بتایا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ فاٹا کی سابق ترقی کے لیے ون لائنر کیوں مختص ہے۔
کمیٹی نے تجویز دی کہ فاٹا کے پروگرامز اور ترقیاتی سکیموں کو پی ایس ڈی پی سکیموں میں شامل کیا جائے۔ کمیٹی رکن نے سابق فاٹا کی ترقی کے لیے اب تک کی کل رقم کے اجرا ترقیاتی گرانٹ، پروجیکٹ کے بارے میں بھی پوچھا۔ کمیٹی نے فاٹا سکیموں کی خصوصی فراہمی کو یقینی بنانے کی سفارش کی۔ کمیٹی نے دسویں این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے عمل کو تیز کرنے کی بھی سفارش بھی کی۔
ایف بی آر کے نمائندوں نے کمیٹی کے شرکا کو سابق فاٹا کے لیے وفاقی ٹیکس رعایت کے بارے میں آگاہ کیا۔ کمیٹی نے سابق فاٹا اور سابق پاٹا میں تاجروں کی سہولت کے لیے ایف بی آر سہولتی مرکز کے قیام کی تجویز دی۔ کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ سابق فاٹا اور سابق پاٹا کی صنعتوں کو روزگار کے لیے مقامی سطح پر ایڈجسٹ کرنا چاہیے اور مقامی طور پر تیار کردہ اشیاء کی سستی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔