تفصیلات کے مطابق لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 1 کے جج ارشد حسین بھٹہ نے سانحہ ساہیوال کے کیس کی سماعت کی۔ جس سلسلے میں مقدمے میں نامزد ملزمان صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے مقدمے میں مقتول ذیشان کے بھائی اور خلیل کے بچوں سمیت 49 گواہان کے بیانات قلمبند کیے، تاہم تمام گواہان نے عدالت کے روبرو ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیا۔
خیال رہے کہ سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے کم عمر بچوں عمیر، منیبہ اور ان کے بھائی جلیل سمیت دیگر نے بھی اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔
مقدمے میں وکلا اور سرکاری گواہوں کے بیانات پر 9 ماہ بعد جرح مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے تمام 6 ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مدعی مقدمہ عبدالجلیل نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کرنے سے انکار کیا تھا جبکہ سانحہ ساہیوال کے زخمی گواہوں نے بھی ملزمان کو شناخت نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کی فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ میں بھی ملزموں کی شناخت نہیں ہوئی جبکہ جائے وقوع سے ملنے والی گولیوں کے خول بھی فرانزک کے لیے تاخیر سے بھیجے گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس کو اسلحہ فراہم کرنے والے انچارج نے سانحہ ساہیوال کا سارا اسلحہ واپس کرنے کا بیان دیا ہے۔
سانحہ ساہیوال کا پسِ منظر
19 جنوری 2019 کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔
بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔
اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔