مگر کیا وجہ ہے کہ ایسے ملک میں امریکہ کا صدر آجاتا ہے۔ اوبامہ اپنے ادوار حکمرانی میں دو بار بھارت آیا لیکن ہماری طرف کا رخ 2006 کے بعد سے کسی امریکی صدرنے نہ کیا۔
بھارت خواتین کے لیے انتہائی غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ اسکے دارالحکومت دہلی کو Rape Capital بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کا ایسا کوئی شہر نہیں جسے تاحال ایسا کوئی لقب یا عرف ملا ہو۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ سیاح اسی بھارت کا رخ کرنے میں تو نہیں جھجھکتے لیکن ہماری طرف آنے میں ان کی سانسیں حلق میں اٹک جاتی ہیں۔ (تاہم، اب ہم بہتری کی جانب جانا شروع ہو رہے ہیں۔)
بھارت کا وزیراعظم ایک ایسی جماعت سے ہے جو شدت پسند، انتہا پسند اور مسلمان دشمن جماعت ہے۔ ان کے وزیراعظم جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو 2002 کے گجرات فسادات میں ان کا بھی عمل دخل تھا۔ اسی وزیراعظم کی سرپرستی میں، کشمیر میں ظلم و بربریت کی ایک تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف، پاکستان میں آمریت تو ضرور رہی لیکن کبھی ایسے کردار کا کوئی شخص حکمران نہ بنا۔
مگر کیا وجہ ہے کہ اقوام عالم اور حتیٰ کہ مسلم دنیا پھر بھی اسی جابر کے ساتھ کھڑی ہے؟
بھارت کا میڈیا اپنے ٹالک شوز میں طوفان بدتمیزی اور جھوٹی خبروں کا انبار لگا دیتا ہے لیکن بھارت کو لیکر، پاکستان کا میڈیا غیر ذمہ داری کا ایسا مظاہرہ شاید ہی کبھی کرتا ہو۔ مگر کیا وجہ ہے کہ اسی جہالت سے بھرپور بھارت کے تعلیمی ادارے عالمی سطح کی تعلیم اور تعلیم یافتہ نوجوان پیدا کر رہے ہیں اور ہماری جامعات ماضی کی عظمت بتانے کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے عموماً قاصر رہتی ہیں۔
اتنی برائیاں ہونے کے باوجود آج بھارت دنیا کا منظور نظر ہے اور ہم دھتکارے ہوئے۔ اس کی ایک سادی سی وجہ بھارت کی معیشت ہے۔ اتنے عیب ہونے کے باوجود اگر کوئی سرمایہ دار بھارت جائے تو اسکا پیسہ دوگنا ہوجاتا ہے۔ جو ففتھ جنریشن وار ہے، اس کا مقصد کیا صرف یہی ہے کہ ممالک کی عوام کو ہی انکا دشمن بنا دو یا اس کا یہ پہلو بھی ہے کہ اپنی تشہیر انٹرنیٹ اور میڈیا کے ذریعے اس خوبصورتی سے کرو کہ آپ کے عیب نظر ہی نہ آئیں۔
ہم اس ففتھ جنریشن کی دوڑ میں اس دُکاندار کی طرح ہیں جو اپنی چیز کا معیار بہتر کرنے کے بجائے اپنے حریف دُکاندار کی چیزوں میں کبھی مچھر تو کبھی چھپکلی ڈال آئے۔
دو شخص اگر ڈوب رہے ہوں تو بچتا صرف وہ ہے جسے تیراکی آتی ہو، ایسی حالت میں اعمال صالحہ اور اعمال بد ساحل پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمیں اگر انڈیا کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ کس چیز سے کریں؟ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ان کے وزیراعظم کی پیدائش کے دن، دنیا کو مانع حمل دوائیوں کی خوبیاں بتانے کے بجائے ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔ حریم شاہ کو دفاتر کے اندر لانے کے بجائے ایماندار اور قابل افسروں کو دفاتر کے اندر لانے کی ضرورت ہے۔
رابی پیرزادہ ایک نڈر خاتون ہیں، وہ جسم سے بم باندھنے کے بجائے کوئی پیار کا نغمہ گائیں، نور جہاں بنیں، بیت اللہ محسود نہ بنیں۔ نیلم منیر نے ٹھمکوں میں جو حب الوطنی بھری ہے، اسی کے بارے میں بہزاد لکھنوی نے کہا تھا،
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
خیر، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ، ہمیں اگر بھارت کو شکست دینی ہے اور اگر ففتھ جنریشن جنگ کو لڑنا ہے تو، تعلیم، معیشت، انڈسٹریز، ٹورزم اور ٹیکنالوجی کو اپنی ترجیہات بنانا پڑے گا، ورنہ ہم ٹھمکے ہی لگاتے رہ جائیں گے۔