پہلے تو میں کچھ اور لکھنا چاہتا تھا پھر کشمیر پر اور آخر کار میں نے ارادہ کیا کہ آزادی مارچ پر لکھوں۔ آزادی مارچ پر اس لئے لکھتا ہوں کیونکہ آزادی مارچ کے آج کل بہت چرچے ہیں۔ گھر سے لے کر یونیورسٹی غرض یہ کہ ہر صحبت میں آزادی مارچ کے حوالے سے مختلف نظریات کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔
آزادی مارچ شروع ہونے میں صرف چند ہی دن باقی ہیں اور اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ چند ہی گھنٹے تو پھر بھی غلط نہیں ہوگا۔ 31 اکتوبر کو صبح سویرے جمعیت علماء اسلام ف کے کارکن آزادی مارچ میں شرکت کریں گے۔ اس آزادی مارچ میں جے یو آئی کے صرف کارکن نہیں بلکہ زیادہ تر اپوزیشن کے کارکن بھی شرکت کریں گے، میں نے ایک اپوزیشن کے کارکن سے کہا کہ کیا آپ آزادی مارچ میں شرکت کریں گے تو انھوں نے کہا جی بالکل! کیونکہ جتنا عوام کا برا حال اس ایک سالہ حکومت میں دیکھا،اتنا پینتیس سالوں میں کبھی نہیں دیکھا۔ اس شخص کے ساتھ میری گفتگو تقریبا پندرہ بیس منٹ تک جاری رہی اور بحث کے دوران میرے ساتھ صرف یہی باتیں کرتے رہے کہ مہنگائی اور صرف مہنگائی ہے، پہلے یہ چیز اتنی قیمت پر ملتی تھیں اور اب اتنی قیمت پر ملتی ہیں۔ میں نے بھی اسے کہا ہاں آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
اس شخص کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ زیادہ تر لوگ اس حکومت سے مہنگائی کی وجہ سے تنگ آ گئے ہیں۔
میرے ایک کزن نے مجھ سے کہا کہ صرف ان لوگوں کو موجودہ حکومت میں مہنگائی نظر نہیں آتی جو باپ کے پیسوں پر عیش کرتے ہیں، اگر پوچھنا ہے تو ان لوگوں سے پوچھیں جو پورا دن مسلسل کام کرکے بھی اپنے گھر کے لئے آٹے کی بوری نہیں خرید سکتے ہیں اور یہی لوگ مہنگائی کی اصلی تعریف اور وضاحت کرسکتے ہیں۔
مجھ تو اندازہ ہورہا ہے کہ 31 اکتوبر کو آزادی مارچ میں یہی محنت کش شامل ہونگے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب بھی کسی تحریک میں سیاسی کارکنوں کے علاوہ عام لوگ شامل ہوں تو اس کی کامیابی کے امکانات بہت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
اگر مولانا کے آزادی مارچ میں سیاسی کارکنوں کے علاوہ عام لوگ شامل ہوئے تو آزادی مارچ کوئی تبدیلی لاسکتا ورنہ تبدیلی تو آئے گئی لیکن اس تبدیلی میں جمہوریت کا خون بھی بہہ سکتا ہے جس سے پاکستان میں جمہوریت کو ناقابل برداشت دھچکا پہنچے گا۔