’’تحنیک‘‘ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی نیک، صالح، متبع سنت بزرگ کے منہ میں چبائی ہوئی کھجور یا اس کے لعاب میں ملی ہوئی کوئی بھی میٹھی چیز مثلاً شہد یا کم از کم کوئی ایسی چیز جو آگ پر پکی ہوئی نہ ہو، بچے کے منہ میں ڈال کے اس کے تالو پر مل دی جائے، تاکہ یہ لعاب اس بچے کے پیٹ میں چلا جائے اور اس طرح اس نیک بزرگ کی نیکی کے اثرات اس بچے کے اندر منتقل ہو جائیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تو آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کی تحنیک فرماتے تھے۔ چنانچہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی تحنیک کروانا حضور ﷺ کی سنت ہے۔ تحنیک کروانے میں حکمت یہ ہے کہ کھجور اس درخت کا پھل ہے جس درخت کو حضور ﷺ نے مؤمن کے ساتھ تشبیہ دی ہے تو گویا پیدائش کے بعد بچہ کو سب سے پہلے کھجور کھلانے میں اس بچہ کے صاحبِ ایمان ہونے کی نیک فال لینا مقصود ہے۔ خاص کر جب کہ تحنیک کروانے والا نیک، صالح، متبع سنت بزرگوں اور علما میں سے کوئی ہو۔ کیوں کہ جب بچے کے پیٹ میں ایسے لوگوں کا لعاب پہنچے گا تو ان بزرگوں کے ایمان اور نیکی کے اثرات اس بچہ پر پڑیں گے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی تحنیک کروائی تھی تو بڑے ہو کر وہ ایسے کمالات اور فضائل کے مالک بنے جن کو شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
تحنیک کو پنجاب میں گڑتی کہتے ہیں۔ طریقہ کار وہی سنت رسول ﷺ والا ہی ہے مگر یہاں کھجور کی بجائے گڑ سے تحنیک کی جاتی ہے۔ اس لئے پنجابی زبان میں اس کو گڑتی کا نام دیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر کسی شخص کی بری حرکتوں پر پوچھا جاتا ہے کہ اس کو گڑتی کس نے دی تھی۔ کمالات کرنے والے اور قابل بندے کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اس کو گڑتی کسی اچھے انسان کی ہے۔ آج کے جدید دور میں جنیٹک سائنس سے بندے کی پرکھ کر لی جاتی ہے کہ آیا زیر مطالعہ بندے میں اس امر کے جینز بھی پائے جاتے ہیں۔ ماحول، صحبت کے اثرات بھی کمال کے ہوتے ہیں۔
لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بچپن میں سبزی کی دکان پر کام کرتے تھے۔ دکان پر لگی قدآور تصویر چھوٹے حسن نصراللہ کی مرکزنگاہ رہتی تھی۔ حسن نصراللہ نے تصویر کی پوری جانکاری لی اور من میں ٹھان لی کہ ایک وقت آئے کہ حسن نصراللہ کی تصویر بھی ایسے ہی لگے گی۔ لبنان کیا پوری دنیا میں حسن نصراللہ کی شہرت ہے۔
پنجابی میں ہم کہتے ہیں کہ بَلہے دا بَلہا ناہ وی ہووے متھے پُھلی ضرور ہوندی اے۔
آج کل ہم نواز شریف پر جمہوریت کے چمپئن کا تاج سجانے کے درپے ہیں۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ:
جمدیاں سولاں دے موہنہ تکھے ہوندے نیں۔
نواز شریف کی سیاسی زندگی ڈھکی چھپی نہیں ہے، سب جانتے ہیں ان کو سیاسی گڑتی کس نے دی ہے۔ نواز شریف کے جینز میں نہ سیاست ہے اور نہ جمہوریت ہے۔ جمہوری ماحول میں رہے اور نہ جمہوری صحبت کبھی انہیں راس آئی ہے۔ جیسے حادثاتی طور سیاست میں آئے تھے آج حادثات، حالات اور مشکلات نے انہیں جمہوری بھی بنا دیا ہے۔
پاکستان کی بانجھ سیاست میں اور کوئی نہیں ہے تو نواز شریف ہے۔