تین بار کے منتخب وزیر اعظم کو اگر سر جھکا کر اس فرسودہ اور بوسیدہ نظام کی اطاعت نہ کرنے کی پاداش میں بستر مرگ تک پہنچایا جا سکتا ہے تو پھر ایک عام آدمی تو اس نظام سے انصاف یا رحم کی توقع ہرگز بھی نہیں رکھ سکتا۔
نواز شریف کو اس حال تک پہنچانے میں جہاں مقتدر حلقوں کا عمل دخل ہے وہیں مسلم لیگ نواز کے دودھ پینے والے مجنوں بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
گذشتہ برس جب سیاسی منظر نامے پر واضح صف بندیاں ہوئی تھیں تو اس وقت سے لے کر آج تک مسلم لیگ نواز کی دوسرے درجے کی قیادت دو کشتیوں کی سواری کے مزے لینے میں مصروف رہی۔
شہباز شریف کا لاہور ایئرپورٹ نہ پہنچ پانا نواز اور مریم کی گرفتاری کے بعد ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے ہٹ کر مقتدر حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنا، اور مریم نواز کے جلسوں میں مسلم لیگ نواز کے پرانے بابوں کی عدم موجودگی سے ظاہر ہو گیا تھا کہ مشرف دور میں زیر عتاب رہ کر بھی اس جماعت کے قائدین نے مزاحمت کی سیاست نہیں سیکھی۔
مریم نواز مسلم لیگ نواز کی وہ واحد رہنما ہے جو مزاحمت کے گر سے آشنا ہے اور جسے عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکالنا آتا ہے لیکن جماعتیں محض شخصیات کے تابع ہو کر نہیں چلا کرتیں۔
جب تک جماعتوں میں صحیح طور پر سیاسی ورکروں کو آگے نہ لایا جائے تب تک پیپلز پارٹی جیسے جیالے یا فضل الرحمان کی جماعت جیسے سر دھڑ کی بازی لگانے والے کارکن اور قیادت جنم نہیں لے پاتے۔
لاہور جیسے شہر جہاں سے مسلم لیگ نواز کے پاس درجن سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں اور تیس کے لگ بھگ صوبائی اسمبلی کی نشستیں موجود ہیں اگر وہاں سے دس، پندہ ہزار افراد بھی حکومت وقت کے نواز شریف کے ساتھ روا رکھے گئے نازیبا سلوک پر احتجاج کے لئے جمع نہیں ہو سکتے تو نواز شریف کو چاہیے کہ صحت میں معمولی بہتری آتے ہی اپنی جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کر دیں۔
اگر شہباز شریف کا ’کمر درد‘ اب بھی ٹھیک نہیں ہوتا تو جاوید ہاشمی جیسا متوالا اس جماعت کی قیادت کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ محض ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر بیانات داغنے یا ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنانے سے نہ تو مقتدر حلقوں کے کان پر جوں رینگے گی اور نہ ہی سٹیٹس کو کے خلاف تیار کردہ بیانیہ کچھ اثر دکھائے گا۔
پنجاب کے عوام میں اس وقت معاشی عدم استحکام اور نواز شریف اور اس کی بیٹی کے خلاف روا رکھے جانے والے سلوک کو لے کر غصہ پایا جاتا ہے لیکن اس غصے کو احتجاج یا تحریک کا رنگ دینے کی قابلیت مسلم لیگ نواز کی موجودہ قیادت کے پاس سرے سے سے موجود ہی نہیں ہے۔
یہ جماعت آج بھی خوشامدیوں کے ٹولے پر مبنی ہے جو سو جوتے سو پیاز کھانے کے بعد انہی قوتوں سے مسیحائی کی متقاضی ہے جن کی بدولت نواز شریف اور مریم نواز اس حال میں ہیں۔
مزاحمت کی سیاست میں دودھ پینے والے مجنووں کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ اگر آج مولانا فضل الرحمان فرنٹ فٹ پر آ کر مقتدر قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے تو اس کی بڑی وجہ اس کی جماعت کے وہ کارکن اور قیادت ہیں جو مولانا کے بیانیے کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔
پیپلز پارٹی جب چاہے سندھ کے اندر سے جیالوں کا جم غفیر جمع کر کے اپنی سٹریٹ پاور شو کر سکتی ہے۔ لیکن مسلم لیگ نواز کی موجودہ قیادت کے پاس میڈیا کے ریٹنگ پوائنٹس اور ٹوئٹر پر ری ٹوئٹس حاصل کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کی ہمت موجود نہیں ہے۔
پنجاب ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے ساتھ کل بھی کھڑا ہوا تھا اور آج بھی کھڑا ہوا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ ہم نے عام انتخابات میں دھاندلی کے تمام تر الزامات کے باوجود اس جماعت کو ایک کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ ووٹ ملنے کی صورت میں دیکھا اور پھر مریم نواز کے جلسوں میں اس کی جھلک دوباری نظر آئی۔ لیکن اگر شہباز شریف اور ان کے ہمنوا ہی عوام کو متحرک کرنے میں دلچسپی نہ رکھیں اور خود کو تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر پیش کر کے بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آنے کی راہ دیکھیں تو پھر پنجاب سے گلہ کیسا؟
پنجاب ان کوفیوں کا ساتھ کیونکر دے گا جو خود محض چند بیانات داغ کر مقتدر حلقوں کو یقین دلواتے ہیں کہ یہ محض سیاسی بیانات تھے۔ الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر شور و غل مچانے سے بھلا بہتر برس کی حاکم قوتوں کو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟
مقتدر قوتوں کو للکارنے کے لئے بھٹو جیسا کلیجہ, بی بی جیسی دلیری نواز شریف جیسی استقامت اور مریم نواز جیسی ہمت درکار ہوتی ہے جو مسلم لیگ نواز کی دستیاب قیادت میں میسر نہیں ہے۔
مقتدر قوتوں سے زیادہ مسلم لیگ نواز کو اس کی دستیاب قیادت نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور پنجاب پر ساتھ نہ دینے کا الزام محض ایک بہانہ ہے۔ پنجاب تو کب کا جاگ چکا ہے اب مسلم لیگ نواز کے کوفیوں کو جگانے کی ضرورت ہے۔