یہ رویہ صرف گلی محلوں تک محدود نہیں۔ بڑے بڑے ایوانوں میں پہنچنے کے لئے بھی انہی استعاروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کیا کیجئے؟ سیاستدان ہیں، اور لوگوں میں مقبول بات ہی کی جائے تو وہ آپ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کی مجبوری ہوتی ہے۔
لیکن سکالر یا عالم کا کردار مختلف ہوتا ہے۔ اس کا کام یہ نہیں کہ مقبول بات کرے۔ اس کا کام ہے کہ سچ بولے۔ کسی مصلحت سے کام نہ لے۔ جن کی سنّت پر عمل کرنے کا لوگوں کو درس دیتا ہے، ان کی سنّت پر خود بھی عمل کرے۔ لیکن سنّت سے مراد صرف داڑھی رکھ لینا، نماز پڑھ لینا نہیں۔ نبی اکرمؐ نے سیاست بھی کی، امامت بھی کی، جنگوں میں فوجوں کی قیادت بھی کی۔ کبھی کسی موقع پر سچ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ کسی مصلحت کے تحت، کسی کی خوشنودی کی خاطر، کسی کے دباؤ کی وجہ سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ یہی وجہ ہے کہ صادقؐ کہلائے۔ علما پر کچھ قوم کا قرض بھی ہوتا ہے۔ آپؐ امانتوں کے امین بھی تھے۔
تو پھر جب آپؐ کا نام لینے والے، آپؐ کے نام پر اپنی اپنی دکانیں کھولنے والے کسی کی خوشنودی کی خاطر، کسی کے دباؤ کے تحت نیو مدینہ کی ریاست بیچ رہے ہوں تو ہم سب پر فرض ہے کہ ان کی منافقت کو بے نقاب کریں۔
ایک صاحب فرماتے ہیں کہ عمران خان مدینہ کی ریاست بنا رہا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو جیلوں میں کب ڈالا جاتا تھا، یہ نہیں بتاتے۔ لوگوں کو اٹھا کر غائب کیا جاتا تھا، اس حوالے سے بھی کوئی روایت بیان نہیں کرتے۔ مگر بضد ہیں کہ ریاستِ نیو مدینہ بن رہی ہے۔
جو لوگ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا تمسخر اڑاتے رہے، وہ ان کے خیال میں ریاستِ نیو مدینہ بھی بنا رہے ہیں، اور بیگم کلثوم نواز کا جنازہ پڑھانے بھی پہنچ گئے۔ نواز شریف ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔ درمیان میں چند روز کے لئے ضمانت پر رہا ہوا، اور پھر واپس جیل چلا گیا۔ اس دوران ریاستِ نیو مدینہ بنتی رہی۔
https://twitter.com/NaveedArifButt/status/1187350753922506752
جیل میں ڈالنے کی وجہ کیا تھی؟ پہلے کہتے تھے کرپشن اور منی ٹریل کا مسئلہ ہے، اب تو وزیرِ داخلہ بھی کہہ چکے کہ نواز شریف تو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن رہا تھا اگر تین چار سینیٹر کچھ نہ کرتے۔ کوئی اب بھی نہ مانے تو مرضی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف ایک سیاسی قیدی ہے۔ اسے جیل میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ اس ملک کے کرتا دھرتاؤں کو ناراض کر بیٹھا ہے۔ مگر مولانا کے مطابق یہ ریاستِ نیو مدینہ ہی بن رہی ہے۔
اب نواز شریف بیمار ہوا ہے تو آپ اس کی عیادت کے لئے پہنچ گئے۔ کیا کوئی حد بھی ہے؟ آخر کتنی منافقت کرنے کے بعد انسان کا ضمیر جاگ جاتا ہوگا کہ بس اب میں کم از کم آئندہ ان پاک ہستیوں کے نام نہیں لوں گا اس زبان سے، اس مقدس زمین کا نام نہیں لوں گا جس کا نام سن کر بھی میرے سامعین کی فرطِ جذبات سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں؟ کوئی حد ہونی چاہیے نا؟ کب تک ملاوٹ اور مدینہ کا نام ساتھ ساتھ چلے گا؟