عمران خان نے ترنت جواب دیا کہ میں یہ ایسے نہیں کہہ رہا کہ وزیر اعظم بنوں گا تو ایسا کروں گا۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، لا الہ الا اللہ، میں چاہے جتنا مرضی گنہگار ہوں، میرا ایمان تگڑا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا، یہ جو ہم انسانوں پر ظلم کرتے ہیں، کبھی اللہ معاف نہیں کرے گا، ظلم کو وہ معاف نہیں کرتا، نہ ظالم کو معاف کرتا ہے۔ یہ ظلم ہے۔ یہ جو ہم کر رہے ہیں، جو ہم نے کیا ہے اپنے لوگوں کے ساتھ، ہماری ایجنسیوں نے کیا ہے، پکڑ پکڑ کے لوگوں کو امریکہ کے حوالے کر رہے ہیں، جو عافیہ صدیقی کے ساتھ کیا ہے، پتہ نہیں اور کتنے لوگوں کے ساتھ کیا ہے۔ اڈیالہ کی جیل سے باہر اٹھا کے جو ان بیچاروں کے ساتھ کیا ہے، میں پاکستانی ہوتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہوں، مجھے شرم آتی ہے کہ کیا اس لئے پاکستان بنا تھا کہ ہم کسی اور کو خوش کرنے کے لئے اپنے لوگوں کو یہ کریں، یا ایجنسیز فیصلہ کر لیں کہ کون لوگ مجرم ہیں، یہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا دھبہ ہے۔ میں آج اعلان کرتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو کبھی ایجنسیز نے کسی انسان کو اٹھایا تو یا میں نہیں یا وہ ایجنسیز نہیں، میں استعفا دینے کے لئے تیار ہو جاؤں گا۔
https://twitter.com/arman_khokher/status/1319849615924088833
پھر 2018 آیا اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ چند ہفتے قبل ان سے الجزیرہ انٹرویو میں ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کی حکومت میں صحافیوں کو اغوا کیے جانے کا الزام ہے تو جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، ایک صحافی کا نام بتا دیں جسے اغوا کیا گیا ہو، صرف ایک صحافی کچھ دیر کے لئے غائب ہوا تھا اور اس کا ابھی تک پتہ نہیں کہ اس کے پیچھے اصل کہانی کیا تھی۔ چند روز بعد ندیم ملک نے پھر مطیع اللہ جان کے بارے میں سوال کیا تو جواب دیا کہ دیکھیں میری حکومت نے تو اغوا نہیں کیا۔ ہمیں تو اس کا نقصان ہی ہوا تو ہم کیوں اس کو اغوا کریں گے۔
گذشتہ ہفتے کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا تو الزام لگا کہ سندھ پولیس کے سربراہ کو رینجرز نے آدھی رات کو ان کے گھر سے اٹھا کر سیکٹر کمانڈر کے گھر پر لا بٹھایا جہاں ان سے زبردستی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے گئے۔ گذشتہ روز اے آر وائے پر دو انمول رتنوں صابر شاکر اور چودھری غلام حسین کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم سے اس بابت سوال ہوا تو انہوں نے ہنسی میں اڑا دیا۔ ہنس کر بولے یہ ایک comedy ہے۔ وہ دراصل اس اغوا کو اغوا ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے مطیع اللہ جان کے اغوا کو الجزیرہ پر انٹرویو دیتے ہوئے مشکوک بنانے کی کوشش یہ کہہ کر کی تھی کہ ہمیں اس کے پیچھے اصل کہانی کا نہیں پتہ۔ کیوں نہیں پتہ؟ حیرت ہے کہ الجزیرہ کے اینکر کو بھی یہ سوال نہ سوجھا کہ جنابپ وزیر اعظم ہیں، واقعے کے دو ماہ گزرنے کے بعد آج آپ سے پہلی بار کوئی یہ سوال کر رہا ہے اور آپ آگے سے کہہ رہے ہیں اصل کہانی کا نہیں پتہ، گویا اصل کہانی کچھ اور ہے؟ تو پھر جواب دیں کہ اصل کہانی کا آپ نے پتہ لگانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔
تاہم، وزیر اعظم کے لئے جو کچھ comedy ہے، اس قوم کے لئے ایک بہت ہی بڑی tragedy بنتی جا رہی ہے۔ جس رات انہوں نے ٹی وی پر بیٹھ کر آئی جی کے مبینہ طور پر اٹھائے جانے کے معاملے کو کامیڈی قرار دیا، اسی رات ایک اور صحافی اغوا ہو گیا۔ بلکہ اگر ایف آئی آر میں درج متن کو دیکھا جائے تو یہ واقعہ تقریباً اسی وقت ہوا جس وقت وزیر اعظم یہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل الفاظ ادا کر رہے تھے کہ یہ ایک comedy ہے۔ علی عمران سید جیو نیوز کا وہ رپورٹر ہے جس نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر کے ٹی وی پر چلائی تھی۔ یہ وہی رپورٹ تھی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ پولیس کی گاڑیاں نکلنے کے وقت ایک اور گاڑی پارکنگ سے باہر نکلنے والی گاڑیوں کا رستہ روکے کھڑی تھی اور پھر پولیس کی گاڑیاں آنے پر اس نے یہ راستہ کھولا۔
خدا کرے کہ یہ سطریں آپ کی نظروں سے گزرنے کے وقت تک علی عمران اپنے گھر واپس آ چکا ہو۔ مگر شاید ہمیں وہ عمران خان اب کبھی واپس نہ ملے جو کلمہ پڑھ کر کہتا تھا کہ میں خدا سے ڈرتا ہوں، کسی نے اٹھایا تو پھر یا تو وہ نہیں یا پھر میں نہیں۔ شاید وہ عمران خان جس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو سن کر اس ملک کے لاکھوں نوجوانوں نے یقین کرنا سیکھا تھا، اب دوبارہ کسی پر یقین نہیں کر پائیں گے۔ وہ عمران خان واپس آ بھی جائے، وہ یقین اب دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔