1۔ جی ایس یو پولیس کی جانب سے فائر کی گئی گولیوں کی زد میں آنے کے بعد ارشد شریف موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے فائرنگ کے مقام سے چند کلومیٹر دور واقع مگادی ٹریننگ سکول سے گولیاں چلائیں۔
2۔ مقامی وقت کے مطابق اتوار کی رات 9 بجے کے قریب مگادی پولیس سٹیشن میں درج کی گئی رپورٹ کے مطابق مقتول صحافی کو اس کے بھائی خرم احمد، مگادی میں کوینیا سے گاڑی میں بٹھا کر لے جا رہے تھے۔ یہ علاقہ معدومی کے خطرے سے دوچار گدھوں کی ایک قسم کے تحفظ کے لیے مشہور ہے۔ زندہ بچ جانے والے پاکستانی شہری نے بتایا کہ وہ نیروبی میں مقیم ایک ڈویلپر ہیں۔
3۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اتوار کی بدقسمت رات کو جب وہ دھول بھری فیڈر روڈ سے کیسیریان تا مگادی روڈ پر داخل ہوئے تو انہیں جی ایس یو کے افسران نے رکنے کا اشارہ کیا مگر وہ نہیں رکے۔ اس کے بعد پولیس نے فائرنگ شروع کی۔
4۔ کار کو چاروں طرف سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے سے کار کی ونڈ سکرین کے بائیں جانب جہاں ارشد شریف بیٹھے تھے، گولیوں کے 9 نشان ہیں۔ پچھلی سکرین کے بائیں جانب 2 سوراخ ہیں، عقبی دائیں دروازے پر ایک گولی کا نشان ہے، بوٹ کے دائیں جانب چار سوراخ ہیں اور ایک نشان سامنے کی طرف دائیں جانب والے ٹائر پر ہے جس کے نتیجے میں ٹائر پنکچر ہو گیا۔
5۔ ارشد شریف کے بھائی خرم احمد جو گاڑی چلا رہے تھے، نے ارشد شریف کے سر پر گولی کا زخم دیکھا جو ممکنہ طور پر ان کی موت کا باعث بنی تھی۔ گولی ان کے سر کے پچھلے حصے میں لگی اور سامنے سے نکل گئی۔
6۔ پولیس رپورٹ کے مطابق جائے وقوعہ پر موجود جی ایس یو افسران نے دعویٰ کیا کہ بچے کے اغوا کے کیس کی اطلاع ملنے کے بعد انہیں Starehe DCI نے ہائی الرٹ پر رکھا تھا۔ کینیا کے ایک شہری نے جس کار کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی تھی اس میں ایک بچہ تھا۔ بچے کو بعد میں کیسریان سے بازیاب کرایا گیا جبکہ KDJ نمبر پلیٹ والی کار لاپتہ تھی۔ تاہم ارشد شریف اور ان کے بھائی کے استعمال میں KDG نمبر پلیٹ والی گاڑی تھی، جس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ پولیس کی جانب سے ممکنہ طور پر گاڑی کی غلط شناخت کی گئی۔
اس واقعے کی تفتیش سے منسلک ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سچائی وہ ہے جو پولیس رپورٹ میں درج ہی نہیں کی گئی۔ رات گئے کاجیاڈو کاؤنٹی کے تمام سینئر پولیس افسران ایک ہنگامی میٹنگ میں موجود تھے اور انہوں نے فون کال یا میسج کے ذریعے میڈیا کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
یہ رپورٹ 'The East African' پر شائع کی گئی جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔