تاہم اس کے باوجود ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ خلا نوردوں کو سپیس میں سیکس کی طلب کس حد تک ہوتی ہے اور وہ اپنی یہ جبلت کس طرح سے پوری کرتے ہیں؟
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے میں شائع دلچسپ رپورٹ میں مختلف خلا نوردوں کے انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپیس میں سیکس کے بارے میں ان کا دھیان نہیں جاتا کیونکہ ان کی تمام تر توجہ کام پر ہی رہتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جرمنی کے مشہور خلا باز ماتھیاس ماؤرر نے 6 ماہ کا عرصہ خلا میں گزارا اور زمین پر واپس آکر اپنے تجربات کو مختلف انٹرویوز میں شیئر کیا، انہوں نے ہر سوال کا بہت مفصل جواب دیا لیکن ان سے جب سیکس کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ پروفیشل ماحول میں رہتے ہوئے کام پر ہی توجہ مرکوز رہتی ہے، انھیں خلا میں سیکس کے موضوع پر بات کرنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا، انھیں کبھی جنسی رغبت کی اہمیت محسوس نہیں ہوئی۔
ناسا حکام کا کہنا ہے کہ خلا میں آج تک انسانوں پر کبھی سیکس کا تجربہ نہیں کیا گیا۔ تاہم پال رُوٹ وولپے جو امریکی خلائی ادارے میں ایک سینئر بائیو ایتھیسٹ ہیں اس سے اتفاق نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ خلا میں جنسی رغبت کا پیدا ہونا ممکن ہے کیونکہ یہ انسانی جبلت ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کی ذہنی صحت کیلئے مشت زنی اور سیکس بہت ضروری ہے۔ یہ عمل ذہنی دبائو کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مردوں میں جب کچھ عرصے تک ڈسچارج کا عمل نہ ہو تو ان میں انگزائٹی بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈسچارج ہونے سے وہ پراسٹیٹ پر بیکٹیریا کے حملے سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔اس لئے خلا میں طویل عرصہ رہنے سے دماغ پر پڑنے والے دبائو سے بچنے کیلئے ڈسچارج ہونا بہترین حل ہو سکتا ہے۔
روس نے 1982ء میں اپنی خاتون خلا باز سویٹلانا سویتسکایا کو ایک مشن پر بھیجا جہاں انہوں نے آٹھ روز تک قیام کیا۔ ان کیساتھ 2 مرد خلا باز بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سویٹلانا سویتسکایا کو وہاں بھیجنے کا مقصد سیکس کی تکمیل تھا۔
اس کے علاوہ امریکی خلائی ادارے ناسا نے 1992ء میں اپنا خلائی شٹل اینڈیور سپیس میں روانہ کیا جس میں مارک لی اور ان کی اہلیہ جین ڈیوس کو بھیجا گیا۔ اس مشن کو ‘’ہنی مون مشن’’ بھی قرار دیا جاتا ہے۔