پنجاب میں تبدیلی بارے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الہیٰ سمجھتے ہیں کہ یہاں جو بھی آئے گا وہ قابل قبول نہیں ہوگا، اس لئے انھیں اقتدار دیا جائے، جبکہ سٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان یہ بات نہیں مانتے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام خبر سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الہیٰ کا موقف ہے کہ اگر سردار عثمان بزدار کمزور آدمی ہیں تو میں تگڑا سپیکر ہوں، اس لئے وزیراعلیٰ کی نشست پر اگر کوئی تگڑا بندہ آ گیا تو پھر میری حیثیت کیا رہے گی، اس لئے ایک کمزور بزدار ان کیلئے ٹھیک ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں اگر تبدیلی کرنی ہے تو انھیں لایا جائے، ورنہ بزدار کو ہی رکھیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سٹیبلشمنٹ کو دانہ ڈال رہے ہیں کہ ہم ہیں تو کیا غم ہے، یہاں تک کہ یہ بھی پیش قدمی ہوئی ہے کہ مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) آپس میں مل کر چودھری پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ تحریک عدم اعتماد لا سکتے ہیں لیکن چودھری پرویز الہیٰ دو ہی صورتوں میں ایسی گیم میں جائیں گے، پہلی یہ کہ جب انھیں سٹیبلشمنٹ کی جانب سے انھیں اشارہ ملے گا، دوسرا یہ کہ سٹیبلشمنٹ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو کہے کہ وہ چودھری صاحب کو منائیں۔
مریم نواز شریف کے ایکسٹینشن بارے میں بیان پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر انہوں نے اپنا موقف کبھی تبدیل نہیں کیا، وہ پہلے بھی ایکسٹینشن کیخلاف تھیں اور آج بھی ہیں۔ نواز شریف ایکسٹینشن پر خوش نہیں تھے لیکن پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے ان پر اس وقت بہت دبائو تھا۔
ایک اور اہم معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے جو بل لانے کی جلدی ہے، وہ سب اگلے الیکشن کے لئے کیا جا رہا ہے، ساری پلاننگ یہ ہے کہ کس حلقے میں ووٹنگ مشینیں درکار ہیں، وہاں ووٹنگ عمل کیسے اوپر نیچے کرنا اور پھر انٹرنیٹ کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔
افغانستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے اندر بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک جانب وہ ہیں جو فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہے اور انہوں نے ڈپلومیسی کی جبکہ دوسری جانب وہ وہ ہیں جنہوں نے ٹوٹے ہوئے جوتوں کے ساتھ جنگ لڑی،زخمی ہوئے اور جانیں دیں، ان کے ویژن مختلف ہیں۔
پاک امریکا تعلقات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب نے ایسے بیان دیئے ہیں جن سے مسئلہ بجائے سلجھنے کے الجھ گیا ہے۔ انہوں نے امریکا نہ جا کر اچھا کیا، وہاں انہوں نے ایسے بیان اور دینے تھے جس سے یوتھیے تو خوش ہو جاتے لیکن سٹیبلشمنٹ مزید پریشان ہو جاتی اور وہ مزید سبکی مول لیتے۔