بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انٹرپول نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کیخلاف ریڈ کارنر وارنٹ جاری کرنے کی حکومتی درخواست پر نوٹس لے کر کارروائی شروع کر دی ہے تاہم ذاکر نائیک نے اس دعوے کی تردید کی ہے انکا کہنا تھا بھارتی حکومت انتقامی کارروئی کا ارادہ رکھتی ہے تاہم انکے خلاف کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا ہے، نہ ہی مستقبل میں ہوگا، بھارتی حکومت کی درخواست ایک بار پہلے بھی مسترد ہو چکی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ منی لانڈرنگ اور مالیاتی جرائم کی تحقیقات کرنے والے بھارتی ادارے ڈائریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ نے جو وزارت خزانہ کے تحت کام کرتا ہے، نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مفرور قرار دیے گئے مشہور اسلامی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ملکیت میں ایک ارب 93 کروڑ بھارتی روپے (تقریباً چار ارب پاکستانی روپے) کے کالے دھن کے اثاثہ جات ہیں۔ ان میں ممبئی اور پونا کے بیس فلیٹ اور بینک بیلنس بھی شامل ہے۔ ادارے کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یہ اثاثہ جات اسلامی ممالک سے مسلمانوں کے لئے رفاہی سرگرمیوں کے لئے دیے گئے عطیات کو خورد برد کر کے بنائے۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چینل پیس ٹی وی پر 2012 سے پابندی لگا رکھی ہے۔ جولائی 2017 میں بھارتی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا پاسپورٹ اس الزام پر منسوخ کر دیا کہ وہ دہشت گردی سے لنک رکھتے ہیں۔ بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن اور پیس ٹی وی مبینہ طور پر مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے بھارتی پاسپورٹ کی منسوخی کے بعد ملائشیا میں مستقل رہائشی ویزے پر مقیم رہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق انہیں سعودی عرب نے 2017 میں اپنی شہریت دے دی ہے لیکن اس کی کبھی بھی سرکاری طور پر تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لئے مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ کے ایک ریستوران پر حملہ کر کے 22 افراد کو قتل کر دینے والے مجرم کے متعلق بنگلہ دیشی حکومت نے یہ کہا تھا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش نے پیس ٹی وی پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد انڈیا نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔